آئینی ترامیم پر ڈیڈ لاک ، اجلاس غیرمعینہ مدت کیلیے ملتوی

196

اسلام آباد (نمائندہ جسارت،خبر ایجنسیاں) آئینی ترامیم پر ڈیڈ لاک ، اجلاس غیرمعینہ مدت کیلیے ملتوی۔مسودہ خفیہ رکھنے پرحکومتی اتحادی بھی نالاں۔ حتمی ہوگاتبھی سامنے لایا جائے گا، وفاقی وزیر قانون۔تفصیلات کے مطابق آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور گزشتہ روز 3 بار وقت کی تبدیلی کے باوجود نہ ہونے والا سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ تک ملتوی کر دیا گیا۔ عدالت عظمیٰ اور ہائیکورٹس کے ججز کی مدت ملازمت میں اضافے اور نئی آئینی عدالت کے قیام سمیت دیگر ترامیم کی منظوری کے لیے گزشتہ روز قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کیے گئے تھے تاہم مولانا فضل الرحمان اور اپوزیشن کے اعتراضات اور تجاویز کے باعث آئینی ترامیم منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش نہ کی جا سکیں۔دوسری جانب سینیٹ کے اجلاس کے لیے بھی گزشتہ روز تین مرتبہ وقت تبدیل کیا گیا لیکن قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہوا تو اس کے بعد سینیٹ کے حکام آئے اور انہوں نے بتایا کہ اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے آئینی کمیٹی کے بھی گزشتہ روز 4 اجلاس ہوئے جس میں تمام تجاویز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تاہم کسی متفقہ نتیجے پر نہ پہنچنے کے باعث رات گئے اسپیکر نے اجلاس آج بروز پیر تک کے لیے ملتوی کر دیا تھا۔ آئینی ترامیم پر تمام جماعتوں کی رضا مندی نہ ہونے کے باعث پہلے سینیٹ اور پھر قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا آئینی ترامیم کا پارلیمنٹ سے منظور نہ ہونا حکومت کی ناکامی ہے، آئینی ترامیم کے معاملے پر مولانا فضل الرحمان کی جیت ہوئی ہے، آئینی ترامیم کا معاملہ غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کودوپہر ایک بجے اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا، اجلاس کے آغاز پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چند دنوں سے آئینی ترامیم سے متعلق ایک ڈرافٹ گردش کرتا رہا میڈیا میں بھی آیا اور مختلف سیاسی رہنماؤں کے ملاقاتوں میں بھی زیر بحث آیا۔انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم کے معاملے میں کوئی سیاست نہیں، ترامیم آئین میں عدم توازن دور کرنے کے لیے ہے، رکن پارلیمنٹ کے حیثیت سے آئین ہمیں اختیار دیتا ہے کہ ہم پارلیمنٹ کی سربلندی کے لیے کام کریں جب کہ قانون سازی اور آئین کی حفاظت کرنا ہمارا حق ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے انتہائی افسوس ہے جس طرح آج اس پارلیمان کی بے توقیری کی گئی اور اس پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹمپ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، جس طرح پارلیمنٹ کو مذاق بنایا گیا میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے تمام ایم این ایز کی بہادری کو سلام پیش کرتا ہوں، خاص طور پر مولانا فضل الرحمن کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمت سے ان حالات کا مقابلہ کیا اور محمود اچکزئی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں وزیر قانون کہہ رہے تھے کہ میرے پاس کوئی مسودہ نہیں ہے، اگر وزیر قانون کو پتا نہیں، حکومت کے نمائندوں کو پتا نہیں تو یہ ڈرافٹ کہاں سے آیا؟اسد قیصر نے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ افسوس پیپلزپارٹی اور بلاول زرداری پر ہے، جن کو سارا علم تھا، اس میں 56 ترامیم پیش کی گئی تھیں، یہ بتائیں کہ آرٹیکل 8 اور 99 اس میں ترامیم کا کہا گیا تھا، یہ تو بنیادی شہری حقوق کو بھی سلب کرنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ رات کی تاریکی میں چھٹی والے دن چوری کی طرح یہ ترامیم پاس کرنی ہوتی ہیں، کیا اس اسمبلی کے کوئی رولز ہیں یا نہیں، آپ نے اگر اس قسم کی قانون سازی کرنی ہے تو سب سے پہلے اس کو پبلک کریں، اس پر تمام بار ایسوسی ایشن کو اعتماد میں لیں، اسمبلی میں بحث کرائیں، اگر اس طرح کی جانے والی قانون سازی کو چوری کہا جاتا ہے۔انہوں نے وزیر قانون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے لیے بہت عزت ہے لیکن آپ بتائیں جو کچھ آپ کررہے تھے کیا آپ کا ضمیر اس کی اجازت دے رہا تھا، کیا یہ آپ کے جدوجہد کی نفی نہیں ہے۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اسد قیصر میرے لیے بڑے محترم ہیں، اسپیکر کی کرسی پر بیٹھنا اس ایوان کا رکن ہونا سب سے بڑا اعزاز ہے، جب کہ آئینی ترمیم میں کوئی نئی بات نہیں، یہ میثاقِ جمہوریت کا حصہ ہے، آئینی عدالت کے قیام کی تجویز کو فوری چیف جسٹس سے جوڑ دیا گیا، آئینی عدالت کے قیام کی منفی تشریح کی گئی۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ حکومتی بل ہے تو سب سے پہلے حکومتی حلقوں میں مشاورت ہوتی ہے، اس کو ایک ڈرافٹ بل کی شکل میں کابینہ کے ساتھ لایا جاتا ہے، کابینہ اس کی منظوری دیتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد کیبینٹ اسے پارلیمنٹ میں لے جانے دیتی ہے، ابھی یہ بل مسودہ بن کر کابینہ میں نہیں گیا، یہ کابینہ کمیٹی برائے تشخیصِ معاملاتِ قانون سازی (سی سی ایل سی) میں زیر بحث نہیں آیا، کچھ عرصے سے مشاورت جاری تھی، موجودہ انتخابات کے بعد جب حکومتی اتحاد تشکیل پارہا تھا جس میں تمام جماعتوں سے مشاورت کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مسودہ حتمی ہوگا تو تبھی سامنے لایا جائے گا،پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور قانون سازی اس کا حق ہے، پارلیمنٹ کو دیکھنا ہے کہ ملک کو کیسے چلنا ہے، سیاستدان اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اختیار کسی اور کی جھولی میں ڈالتے آئے ہیں جب کہ چیف جسٹس کو طے نہیں کرنا کہ ملک کیسے چلے گا بلکہ یہ پارلیمنٹ کو کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ قانون ساز پارلیمان کا اختیار ہے وہ آئینی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے مناسب قانون سازی کرسکتی ہے ، 25 کروڑ عوام نے پارلیمان کو یہ اختیار دیا ہے کہ انہوں نے سمت طے کرنی ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ ہم سب کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹناہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ کس چیز میں فائدہ ہے اور کس چیز میں نہیں ہے، اس کو اگلے 5 سال سے 20 سال کے تناظر میں دیکھیں۔پی پی رہنما نے مزید کہا کہ میڈیا میں جو ڈرافٹ گردش کررہا ہے، یہ وہ ڈرافٹ نہیں ہے اس میں بہت سے چیزوں ہر ہمیں بھی اعتراض ہے جب کہ ہم کوئی شب خون نہیں مارنا چاہتے تھے، ہمارا دل بھی وہی کرتا ہے جو آپ کا کرتا ہے۔علاوہ ازیں حکومت کے اتحادیوں نے بھی آئینی ترمیم کا مسودہ نہ ملنے کا شکوہ کردیا۔ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسودہ نہیں تو ورکنگ پیپر خصوصی کمیٹی اجلاس میں دیا جانا چاہیے تھا۔ اپوزیشن کاگلہ ہے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا، بطور اتحادی ہمیں بھی تحفظات ہیں،عام طور پر چھٹی کے دن اجلاس نہیں ہوتا۔ قانون سازی کا ایک طریقہ کار ہے۔ڈاکٹر فاروق ستارنے کہا کہ خصوصی کمیٹی بنائی گئی ایک اچھا موقع تھا،اس اجلاس کے مقاصد واضح تھے کہ آئینی ترمیم لائی جا رہی ہے، آئینی ترامیم کے مندرجات میڈیا پر آ چکے تھے۔یہ طے ہو گیا کہ اتوار کے روز اسے لایا جائے گا۔ خصوصی کمیٹی بن گئی تھی تو اس میں ڈرافٹ یا ورکنگ پیپر لانا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمان نے آپ کو متنبہ کیا کہ یہ تحریک آخر میں آپ کے گلے پڑے گی۔ ایم کیو ایم کی تجاویز کو بھی آئینی ترامیم کا حصہ بنایا جائے، ہم ن لیگ کے اتحادی ہیں مگر ہماری اپنی ایک شناخت ہے۔اس سارے معاملے میں ہم سے اس طرح رابطہ نہیں کیا گیا۔ اس پر اپوزیشن جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔دریں اثناء ن لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم قومی اسمبلی کے نئے سیشن میں پیش کی جائیں گی۔سینیٹ میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر اور خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے بیان میں کہا کہ آئینی کمیٹی کا تین گھنٹے کا اجلاس ہوا۔ مولانا فضل الرحمان کو ترامیم پر کوئی اصولی اختلاف نہیں ہے، مولانا کی دو باتیں ہیں ایک تو یہ ہے کہ ہمیں وقت دیا جائے اور دوسری وہ نمبرز پر اپنا اطمینان چاہتے ہیں، نمبر گیم کی حد تک کوئی مسئلہ نہیں ہے، نمبرز موجود ہیں۔سینیٹر عرفان صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے نئے سیشن میں ترامیم آجائیں گی۔ کمیٹی میں کوئی کسی کا محتاج نہیں تھا۔قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ امریکا سے واپسی تک آئینی ترمیم کا معاملہ مؤخر کردیا گیا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے رواں ہفتے نیویارک جائیں گے، وزیراعظم کے دورہ امریکا کے باعث آئینی ترمیم کا معاملہ فی الحال مؤخر کردیا گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی امریکا سے واپسی تک دوبارہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ادھر لیگی رہنما و سینیٹر عرفان صدیقی نے مجوزہ آئینی ترمیم غیر معینہ مدت تک مؤخر ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترمیم آنے میں ہفتہ دس دن بھی لگ سکتے ہیں،اگر ترمیم نہیں بھی آئی تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔