شیخ حسینہ کی حوالگی کے لیے بھارت پر دباؤ بڑھنے لگا

221

کم و بیش ڈیڑھ ماہ سے بھارت نے بنگلا دیش کی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کو نئی دہلی کے نزدیک ایک فوجی علاقے میں پناہ دے رکھی ہے۔ طلبہ تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد نے 5 اگست 2024 کو مستعفی ہوکر اپنے قریبی ساتھیوں سمیت بھارت کی راہ لی تھی۔

بنگلا دیش کی عبوری حکومت نے شیخ حسینہ واجد پر 90 سے زائد مقدمات درج کیے ہیں۔ ان مقدمات کا تعلق قتلِ عام کی کوشش اور انسانیت سوز جرائم سے ہے۔ یہ مقدمات عوامی لیگ کے پندرہ سالہ اقتدار کے دوران سیاسی مخالفین کو کچلنے اور بہت سوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے حوالے سے ہیں۔

شیخ حسینہ واجد پر دائر کیے گئے مقدمات اُسی انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل میں چلائے جائیں گے جن میں جماعتِ اسلامی اور بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کے عہدیداروں کے خلاف مقدمات چلائے گئے تھے اور جماعتِ اسلامی کے متعدد قائدین کو موت کی سزا دے دی گئی تھی۔

شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کے حوالے سے بھارت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ بنگلا دیش کی عبوری حکومت اور فوج چاہتی ہے کہ شیخ حسینہ کو بنگلا دیش کے حوالے کیا جائے تاکہ اُن کے خلاف مقدمات کی کارروائی باضابطہ طور پر شروع کی جاسکے۔

بھارت کے لیے یہ بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ شیخ حسینہ واجد نے پندرہ سالہ اقتدار کے دوران اپنے ملک کو بھارت کا بغل بچہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 1971 میں سابق مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنانے کی خوں ریز شورش کے دوران بھی بھارتی حکومت نے عوامی لیگ اور اُس کے عسکریت پسند وِنگ مکتی باہنی کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ بنگلا دیش کے قیام کے بعد بھارت کے احسانات کا بدلہ شیخ مجیب الرحمٰن اور اُن کی پارٹی نے اس طور دیا کہ بنگلا دیش کے تمام معاملات بھارت کے ہاتھ میں دے دیے۔ اس کے نتیجے میں بنگلا دیش ہر اعتبار سے بھارت کا دست نگر ہوکر رہ گیا۔

عوامی لیگ جب بھی اقتدار میں آئی ہے اُس نے پالیسیوں کا جھکاؤ بھارت کی طرف رکھا ہے۔ اس کے نتیجے بنگلا دیش کی سیاست، معیشت اور معاشرت مکمل طور پر بھارت کے ہاتھوں یرغمال ہوکر رہ گئی ہے۔ بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی چاہتی ہے کہ بنگلا دیش کو بھارت کے چنگل سے نکالا جائے۔ طلبہ تحریک نے یہ موقع بھرپور انداز سے فراہم کیا ہے اور بھارتی قیادت کی نیندیں اُڑ گئی ہیں۔

بنگلا دیش کے پاس چین کی طرف جھک کر بھارت کے لیے دردِ سر بن جانے کا آپشن موجود ہے۔ ایسی بڑی تبدیلیوں سے قبل بنگلا دیش کی عبوری حکومت چاہتی ہے کہ بھارت سے شیخ حسینہ کی حوالگی حاصل کی جائے تاکہ عوام کا غصہ ٹھنڈا ہو اور سابق وزیرِاعظم کے خلاف مقدمات تیزی سے نمٹائے جاسکیں۔

بھارت کے لیے شیخ حسینہ کی حوالگی بہت مشکل امر ہے کیونکہ اس سے بہت سے ملکوں کے سیاست دانوں کو یہ پیغام ملے گا کہ اگر انہوں نے بھارت کی طرف بہت زیادہ جھکاؤ دکھایا تو کل کو وقت پڑنے پر اُن کا بھی وہی انجام ہوگا جو شیخ حسینہ کا ہوا اور بھارتی قیادت اُنہیں بھی اُسی طرح بے یار و مددگار چھوڑ دے گی۔