مودی اچانک انسانیت کی بات کیوں کر رہے ہیں؟

233

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، جنہیں انسانیت کا شدید دشمن سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر ان کے ہندوتوا نظریات کے تحت اقلیتوں کے قتل کی کھلی چھوٹ کی وجہ سے، حالیہ دنوں میں انسانیت کی بات کرنے لگے ہیں۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں زیادہ تر افغانستان میں ہونے والی خلاف ورزیوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، جبکہ بھارت میں ایسے واقعات مسلسل رونما ہو رہے ہیں جن سے انسانیت خود شرمندہ ہوتی ہے۔

نئی دہلی میں عدالت عظمیٰ کی 75 ویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے بڑھتے ہوئے جرائم کو ختم کرنے اور خواتین اور بچوں کے مقدمات میں فوری انصاف کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے تحفظ کے حوالے سے کئی قوانین موجود ہیں، لیکن آج کے معاشرے میں خواتین کے خلاف جرائم اور بچوں کے تحفظ کے مسائل سنگین ہیں۔

مودی کا یہ بیان ان کے سابقہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے حیرت انگیز ہے۔ یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ شخص جو انسانیت کا قصائی سمجھا جاتا ہے، اب اچانک اس کو انسانی حقوق کے قوانین کا خیال کیوں آ رہا ہے؟ کیا یہ صرف ایک سیاسی بیان ہے؟ مودی کے بیانات ان کے ماضی سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مودی کو حالیہ خوفناک واقعات، جیسے منی پور کا واقعہ، یاد دلانے کی ضرورت ہے، جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان واقعات کے دوران سیکولرازم کہاں تھا؟۔

9 اگست کو کولکتہ کے آر جی کار میڈیکل کالج سے وابستہ ایک تربیتی خاتون ڈاکٹر کو بہیمانہ طور پر زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کر دیا گیا۔ اس کی لاش اس کے کمرے میں ملی، اور پوسٹ مارٹم نے جنسی زیادتی کی تصدیق کی۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی نے اچانک انسانی حقوق کے حوالے سے تشویش ظاہر کی ہے
کیونکہ ان پر امریکا کا دباؤ ہے۔ خاص طور پر امریکا نے بنگلا دیش کی صورت حال کے بارے میں مودی اور بھارتی میڈیا کے بیانیے کو مسترد کر دیا ہے۔ مودی حکومت اس بات پر ناراض ہے کہ امریکی میڈیا نے بنگلا دیش میں ہندوؤں کے خلاف حملوں اور امتیازی سلوک کے پروپیگنڈے کو نظر انداز کیا ہے۔ بھارتی میڈیا بھی اس بات پر ناراض ہے کہ امریکا نے بنگلا دیش میں ہندوؤں کے خلاف مبینہ مظالم پر جان بوجھ کر خاموشی اختیار کی ہے۔

5 اگست کے بعد سے، شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے سقوط کے بعد، بھارتی پروپیگنڈا بنگلا دیش کی بین الاقوامی ساکھ کو داغدار کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ بھارتی میڈیا نے شیخ حسینہ کے ماتحت بنگلا دیش کو خوشحالی کی ایک مثال کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، جسے اب وہ خراب اور طلبہ کی تحریک کو ہندوؤں کی زندگی کو مشکل بنانے کی ایک کوشش کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اگرچہ مودی کی حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے قانونی اصلاحات کی بات کی ہے، لیکن ان اصلاحات کا عملی اثر محدود ہے، اور خواتین کے حقوق کے تحفظ میں ابھی تک نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو نہیں ملی ہیں۔ بھارت میں خواتین کو درپیش بڑھتے ہوئے مسائل سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔ مودی کو دھوکہ دہی کے حربے چھوڑ کر دوبارہ معیشت کو مضبوط کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔