یہ کتنا عجیب ہے کہ دوہزار برس کی ایک طویل اور دکھ انگیز جہاں گردی اور بد سلوکی سہنے والی قوم ایک ایسی قوم پر سنگین ظلم کرنے کے لیے بے تاب اور بے قرار ہے جس کا یہودیوں کی ماضی کی تکالیف سے کوئی تعلق نہیں۔ یہودیوں کی قلیل آبادی کو دیکھتے ہوئے امکان تھا کہ وہ فلسطین میں عربوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات سے اپنے مستقبل کی صورت گری کریں گے جب کہ دشمن عرب سمندر کے بارے میں یہی امکان تھا کہ وہ تلخی، نفرت اور حقارت سے اس یہودی جزیرے کو اس وقت تک گھیرے رکھے گا جب تک اس کے وجود کو ختم نہ کردے لیکن آج معاملہ برعکس ہے۔ یہودی وجود عربوں سے برسرجنگ رہنے میں اپنا مستقبل دیکھ رہا ہے جب کہ عرب اور مسلم دنیا کے جنگوں سے گریزاں حکمران دوستانہ تعلقات کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔
عرب اور مسلم دنیا کی جنگی تیاریاں، ان کی فوجیں، بین البراعظمی بلیسٹک میزائل اور اسٹرٹیجک ہتھیار یہودی وجود سے نبردآزما ہونے کے لیے نہیں ہیں، ان کی نہ ختم ہونے والی کثیر الجہت فوجی مشقیں اور عسکری صلاحیتیں اپنی چھینی ہوئی میراث کی واپسی کے لیے نہیں ہیں، یہ پرعزم مدافعت کے لیے بھی نہیں ہیں، یہ محض فیشن زدہ نمائشیں ہیں۔
آئے دن الیکٹرونک اور سیٹلائٹ میڈیا پر اسلامی ممالک کے دارالحکومتوں میں جوش سے لرزا دینے والی فوجی مشقوں کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں جن میں افواج کی مہارت، اسلحہ اور جدید ترقیاں دکھائی جاتی ہیں پس منظر سے اس اعلان کے ساتھ کہ یہ سخت تربیت یافتہ افواج کسی بھی ملک کو عظیم بنانے کے لیے درکار تجربے، ٹیکنالوجی اور سامان سے پوری طرح لیس ہیں۔ افواج کی بین الاقوامی رینکنگ میں یہ سپاہ ممتاز نمبروں اور سونے کے تمغوں کے اعزازات کی مستحق قرار دی جاتی ہیں۔ حالانکہ خیر سے یہ سب اس ترانے کے بغیر ہے کہ ان میں سے بعض افواج اندروں جوہری صلاحیت والے ہتھیاروں کی بھی حامل ہیں۔
عرب ویب سائٹ Youm7 سے درآمدہ اطلاع کے مطابق 3 سے 5 ستمبر تک مصر کے شہر العلمین میں ’’مصر انٹرنیشنل ایوی ایشن اور اسپیس نمائش 2024‘‘ منعقد کی گئی۔ اس نمائش کو افریقا اور مشرق وسطیٰ میں ہوا بازی اور خلا کے میدان میں ایک منفرد عالمی ایونٹ قرار دیا جارہا ہے۔ اس فضائی شو میں دنیا بھر کی ایوی ایشن کے صنعت کاروں اور خلا کی صنعتوں سے وابستہ 300 سے زائد کمپنیوں اور اداروں نے شرکت کی جو 100 سے زائد ممالک کی نمائندگی کررہے تھے جن میں سعودی عرب بھی شامل تھا۔ شو کے دوران مختلف ماڈلز کے سول، ملٹری اور گائیڈڈ ہوائی جہازوں کی نمائش بھی کی گئی۔ نمائش کی خاص بات اس مصری بکتر بند گاڑی کی عکس بندی تھی جس پر فخریہ طور پر ’’مصر میں تیار کردہ‘‘ لکھا ہوا تھا۔
سعودی F15 سیریز کے طیارے، یورو فائٹر ٹائی فون طیارے اور مصنوعی ذہانت اور ڈرونز کے ذریعے سہولت کے حفاظتی نظام کی نمائش بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ F15SA طیاروں کے ڈیزائن، ترقی، پیداوار، ٹیکنیکل سپورٹ، مرمت اور پارٹس بنانے کے میدان میں بھی اعلیٰ سطح کی صلاحیتوں کی نمائش کی گئی۔ نمائش کی سرگرمیوں کے دوران شرکاء نے پیشہ ورانہ فضائی شو کا بھی مشاہدہ کیا جس میں سعودی طیارے، یورو فائٹر ٹائی فون کا ایک سولو فضائی شو بھی شامل تھا جس میں کئی فضائی کرتب بھی پیش کیے گئے جو مہارت اور فنی درستی سے بھر پور تھے۔
نمائش میں پیش کردہ یہ سب ہتھیار اور عسکری صلا حیتیںغزہ سے اسرائیل کی طرف ایک پتھر پھینکنے کی دوری کے فاصلے پر موجود تھیں لیکن یہودی وجود ان سے محفوظ ومامون ہے۔ یہ چیز ماضی میں کہیں بہت دور گم ہوگئی ہے جب عربوں میں دینی اور عربی حمیت پائی جاتی تھی اور امت مسلمہ کے مستقبل میں وہ اپنا حال موجود پاتے تھے۔ نمائش میں یہودی وجود کو اشاریت کی کہیں کوئی ہلکی سی جھلک اور دھمکی بھی موجود نہیں تھی۔ اس نمائشی تام جھام سے بہتر تھا کہ ایک رائفل کی نمائش کی جاتی جس کے اٹھانے اور اسرائیل کی سمت فائر کرنے کی سکت عربوں میں ہوتی لیکن اس کا کیا جائے عربوں اور مسلم ممالک کی ہر چیز نمائشی ہے، ان کا اسلحہ بھی اور بیرکوں میں منجمد بیٹھی افواج بھی جس کے صرف ایک حصے کے استعمال سے ہی یہودی وجود کا خاتمہ ممکن ہے چاہے وہ فوج اسرائیل کی سرحدوں سے قریب ہو یا دور۔
اس نمائش میں جس زبردست طاقت کا مظاہرہ کیا گیا کیا اس سے اسرائیل میں ہلکی سی بھی ہلچل مچی ہوگی؟، یہودی وجود نے اپنے جسم پر معمولی سی بھی آگ کی تپش محسوس کی ہوگی؟ اسرائیل کے اطمینان کی بات یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ عرب اور مسلم ممالک کے حکمران ایک گہرے کنویں میں گررہے ہیں، یہ طاقت کے نمائشی اظہار اور تیز شور ان کے چہروں کی کالک اور مقدر کی سیاہی میں کوئی کمی نہیں لاسکتا۔ عربوں اور مسلم حکمرانوں کی غداری اور ان کے کمانڈروںکی بزدلی اور کرپشن نے انہیں آنکھیں کھولنے اور یہودی وجود کے خلاف بازو ہلانے کی جرأت سے بھی محروم کررکھا ہے اور اسی حقیقت نے یہودی وجود کو اپنی جارحیت اور ظلم پر ڈٹے رہنے کے قابل بنایا ہے، اس حد تک کہ اب وہ اہل غزہ کے مکمل خاتمے، مسجد اقصیٰ کو مسمار کرنے اور اپنے مذموم ہیکل کی تعمیر پر کمر بستہ نظر آتا ہے۔ قہقہے لگاتے یہودی سوچتے ہوں گے انہیں کون روکے گا؟ یہ عرب اور مسلم حکمران!! آخ تھو۔
مسلم دنیا کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے عرب اور مسلم حکمران اس پر رنجیدہ نہیں ہیں۔ لگتا ہے وہ اس وقت کا انتظار کررہے ہیں جب یہودی خطے میں مکمل طور پر غالب آجائیں اور ان کی ریاست نیل اور فرات تک وسیع ہو جائے اور انہیں وہ سب حاصل ہو جائے جس کا انہوں نے خواب دیکھ رکھا ہے۔ مصر، ترکی، اردن اور پاکستان کی افواج اس قدر باصلاحیت ہیں کہ یہودیوں کے خلاف، ان کی مدد کرنے والوں کے خلاف اور ان کی پیروی کرنے والوں کے خلاف وہ کچھ کرسکتی ہیں کہ حیرت سے کان کھڑے ہو جائیں۔ وہ فلسطین اور اس کے مقدسات کو آزاد کرانے اور بیوائوں اور سوگواروں کا ایسا انتقام لے سکتی ہیں کہ یہودی وجود گہری ذلت میں جا گرے لیکن ان افواج کے خود اعتمادی سے محروم غدار حکمران اس سعادت کی راہ میں حائل ہیں کیونکہ وہ یہودیوں سے ملے ہوئے ہیں۔ وہ یہودی وجود کا سایہ ہیں۔ جس دن سایہ مٹ گیا یہودی وجود بھی مٹ جائے گا۔
وقت کی کسی بھی کروٹ سے مسلمانوں کے باب میں یہودی وجود اور اس کے آقا امریکا کے عزائم تبدیل ہوتے نظر نہیں آرہے۔ ایک لامحدود جذبے کے ساتھ وہ مسلمانوں کو کہیں نہ کہیں قتل کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کا ہر منظر نامہ مسلمانوں کی شکست خوردگی اور توڑ پھوڑ سے عبارت ہے لیکن مسلم دنیا کی سیاسی اور فوجی قیادتوں نے فیصلہ کررکھا ہے کہ اسرائیل اور امریکا ہی ان کا عزیز ترین دوست رہے گا یہاں تک کہ وہ جہنم کی گہرائیوں میں دھکیل دیے جائیںاور فرشتے ان پر لعنت بھیج رہے ہوں۔