نیو لبرل ازم کا معاشی تصور اور اِس کی تباہ کاریاں

393

اپنے شہریوں کو زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمے دار ہوتی ہے لیکن گزشتہ کچھ دہائیوں سے دْنیا کی مختلف ریاستیں اپنی اس ذمے داری سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگی ہیں۔ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی سماجی شعبوں اور انسانی ضرورت کے لیے بھی بیش تر ریاستوں کی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ نجی شعبے پر انحصار کرتا نظر آرہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پرائیویٹائزیشن کے اس رحجان میں اضافہ کب اور کیسے شروع ہوا؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کا جائزہ لینا ہو گا۔

انیسویں صدی عیسوی میں ’فری مارکیٹ اکانومی‘ کا تصور دیا گیا۔ کہا یہ گیا کہ تجارت اور معیشت اْسی صورت میں تیز رفتار ترقی کر سکتی ہے اگر مارکیٹ کی قوتوں کو آزاد رکھا جائے اور اس میں حکومتی مداخلت کم سے کم ہو۔ مگر اس تجارتی آزادی کا نتیجہ 1929ء میں عظیم عالمی کساد بازاری (Great Depression) کی صورت میں نکلا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اس بحران اور جنگ عظیم دوم کے بعد کنیزین ماڈل Keynesian Economics سامنے آیا جس میں کنٹرولڈ مارکیٹ کا تصور پیش کیا گیا اور تجارتی پالیسیوں پر حکومت اور اسٹیٹ بینک کا کنٹرول ضروری قرار دیا گیا۔ یہ درحقیقت کلاسیکل لبرل ازم اور سوشلسٹ منصوبہ بندی کا درمیانی راستہ تھا۔ اس ماڈل کے اثرات 1945ء سے 1975ء تک قائم رہے۔ 1945ء سے 1980ء تک سرمایہ دار ریاستوں نے سوشل ویلفیئر اسٹیٹس کے تصور پر کام کیا، جو بظاہر سوشلسٹ انقلاب کے خوف کا نتیجہ تھا۔ اس تصور کے تحت سماجی شعبوں جیسے صحت و تعلیم میں خود ریاست کا کردار بنیادی تھا۔ مگر 1975 کے بعد یہ لبادہ بھی اْترنا شروع ہوا اور انیسویں صدی عیسوی کا لیس فیئر مارکیٹ (less fair market) کا تصور نیو لبرل ازم کے نام پر لانچ کیا گیا۔

1980ء کی دہائی میں جب یہ paradigm shift آیا تو کارپوریٹ سیکٹر کے کردار میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ نہ صرف تجارت اور معیشت بلکہ سوشل سیکٹر میں بھی نیو لبرل اصولوں کا اطلاق شروع ہوا۔ نیو لبرل ازم کا ماڈل بڑے سرمایہ دار ممالک نے از خود اپنا لیا مگر ترقی پذیر ممالک میں یہ ماڈل ورلڈ بینک اور یو ایس ایڈ جیسے اداروں کے ذریعے برآمد کیا گیا۔ حکومتوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ سوشل سیکٹر پر ریاستی وسائل خرچ کرنے میں کمی لائیں۔

نیو لبرل ازم کے اس نئے ماڈل کے تحت پاکستان میں بھی 1990ء میں Hospital Autonomy Reforms متعارف کرائی گئیں۔ پہلے مرحلے میں صحت کے بجٹ میں کمی کی گئی اور آبادی میں اضافے کے تناسب سے نئے اسپتال قائم نہیں کیے گئے۔ سرکاری اسپتالوں کے بتدریج گرتے ہوئے معیار کے نتیجہ میں عوام کا اعتماد کم ہونا شروع ہوا۔ یہیں سے پرائیویٹ پریکٹس کے رحجان کو فروغ ملا اور ایسے کلینک اور عطائی معالج بھی مارکیٹ میں آگئے جو کسی قسم کے قانون اور نگرانی سے آزاد تھے، ان حالات نے سرکاری اسپتالوں کی نجکاری اور کارپوریٹ سیکٹر کے وجود کے لیے جواز فراہم کر دیا۔

اِسی منصوبے کے تحت پنجاب میں سرکاری اسپتالوں کی بہت سی سروسز آوٹ سورس کر دی گئیں اور عطائیت کے خاتمے اور نجی اسپتالوں کی ریگولرائزیشن کے لیے ہیلتھ کیئر کمیشن قائم کیا گیا۔ اسی طرح فارمیسیز کے لیے قوانین پر سختی سے عملدرآمد شروع کیا گیا۔ صوبہ خیبر پختون خوا اور پنجاب میں انشورنس سسٹم اور ہیلتھ کارڈ بھی متعارف کرائے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحت کے لیے مختص بجٹ سرکاری اداروں کی بہتری پر خرچ ہونے کے بجائے انشورنس کارڈ کے نام پر نجی شعبے کی جیب میں پہنچنا شروع ہوگیا۔ یوں ان اقدامات کے نتیجے میں کارپوریٹ سیکٹر کی آمد کے لیے ماحول سازگار بنا دیا گیا۔

نیو لبرل ازم کو پروموٹ کرنے والوں کا موقف ہے کہ حکومتوں کا کام محض ریگولیٹری اتھارٹی کا ہونا چاہیے جبکہ مینجمنٹ نجی شعبے کے حوالے کر دی جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ محض منافع کے اصول پر کام کرنے والا کارپوریٹ سیکٹر کیا خط ِ غربت سے نیچے 40 فی صد سے زیادہ آبادی والے ملک کے باسیوں کو صحت کی یکساں معیاری سہولتیں فراہم کر سکے گا اور ریاست اس نجی شعبے پر عوام کو سستے داموں صحت سہولت فراہمی کے حوالے سے اپنے قوانین کا نفاذ کر پائے گی؟

نیو لبرل ازم کا یہ درآمد شدہ ماڈل جو خود برطانیہ اور امریکا جیسے ممالک میں ایک بڑی آبادی تک صحت کی سہولتیں پہنچانے سے قاصر ہے اور وہاں کے الیکشن میں صحت کا ایشو ایک بڑا ایجنڈا پوائنٹ ہوتا ہے، وہ ماڈل پاکستان جیسی کمزور ریاستوں میں کیا اثرات مرتب کرگیا ہے، یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ظاہر ہے وہ ذمے داری جو ریاست خود اٹھانے پر تیار نہیں تھی، اس کی توقع کارپو ریٹ سیکٹر سے کیسے کی جا سکتی تھی۔

نیو لبرل ازم کے اِسی ماڈل کو پاکستان میں توانائی کے شعبے پر بھی لاگو کیا گیا، جس کا خمیازہ آج پوری قوم مہنگی بجلی، اور ناقابل ِ برداشت، مسلسل بڑھتے کیپسٹی چارجز کی صورت میں بْھگت رہی ہے۔ بجلی کی پیداوار نجی شعبے کے حوالے کرنے، یعنی پرائیویٹائزیشن کی وجہ سے بجلی کی پیداواری لاگت بڑھنے سے معاشی ترقی کی شرح کم ہوتی چلی گئی، کیونکہ پیدواری لاگت بڑھنے سے بجلی کے صنعتی اور تجارتی استعمال میں بھی بجائے اضافہ کے کمی ہونے لگی۔ یہی صورتِ حال گھریلو صارفین کے معاملے میں رہی۔

ویسے تو عالمی سامراجی اداروں کی ہدایات اور ایما پر مختلف ریاستوں نے نیو لبرل اکنامک پالیسیوں کا نفاذ 80ء کی دہائی سے ہی شروع کردیا تھا لیکن بجلی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے اور لوڈشیڈنگ سمیت بحران کی دیگر شکلوں کا غیر معمولی اظہار 1994ء کے بعد سامنے آنا شروع ہوا۔ اسی دوران امریکا اور ورلڈ بینک کی براہِ راست مداخلت سے مختلف ملکوں نے بجلی کی پیدوار سمیت تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولتوں سے دستبرداری اختیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا، اور ان شعبوں کی نجکاری کا آغاز کردیا گیا۔

اِسی پالیسی کے زیر تابع ہمارے ملک میں بھی 1994ء میں پیپلز پارٹی کی بینظیر حکومت نے نئی پاور پالیسی کا اجرا کیا۔ اس پاور پالیسی کی ڈرافٹنگ میں امریکی سیکرٹری برائے توانائی ہیزل اولیئری نے بنیادی کردار ادا کیا۔ انہوں نے 80 کے قریب امریکی سرمایہ داروں کی تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ’کارِ خیر‘ سرانجام دیا جو آج ایک اژدھا بن کر پوری قوم کو نگلے جارہا ہے۔ اس منصوبے کا ماسٹر مائنڈ ورلڈ بینک تھا۔ اس پاور پالیسی کے تحت 17 آئی پی پیز لگائے گئے، جبکہ ایک سرکاری آئی پی پی کی نجکاری کی گئی۔ یوں 18 آئی پی پیز سے بجلی کی نجکاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ اِسی پالیسی کے تحت آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کے نتیجے میں جون 1996 میں حب پاور پلانٹ سسٹم میں شامل ہوا۔ ہر آنے والی حکومت نے سستی بجلی کے لیے نئے ہائیڈل پاور پروجیکٹس لگانے اور ڈیم بنانے کے بجائے آسان راستہ چنا جس میں کمیشن کی صورت میں لمبا مال بنانے کے بھی خوب مواقع میسر تھے۔
(جاری ہے)