بنگلا دیش، عبوری دور طویل ہوگا

336

دوسراحصہ

اسی وینا سیکری کے تجزیے کی قسم کے ایک اور تجزیہ نگار ریٹائرڈ میجر جنرل جی ڈی بخشی ہیں وہ بھی دور کی کوڑی لائے اور بنگلا دیش میں حکومت کی تبدیلی کو غالباً بخشی ہی نے سب سے پہلے رنگین انقلاب کا نام دیا ہے، اور کہا کہ چین، امریکا اور پاکستان نے مل کر جنوبی ایشیا میں جیو پولیٹیکل (جغرافیائی سیاسی) زلزلہ پیدا کردیا ہے۔

بخشی کے تجزیے کو پڑھنے سے قبل ان تین کھلاڑیوں کا تجزیہ کیا جائے جن کا نام انہوں نے لیا ہے اس خطے میں چین اور امریکا دونوں کے مفادات ہیں اور دونوں پاکستان کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور امریکا بھارت اور پاکستان کے ذریعہ، لیکن تینوں ایک ہوکر بنگلا دیش میں حکومت تبدیل کریں گے یہ ذرا مشکل بات ہے، جس کام میں چین کا مفاد ہے امریکا اسے کیسے ہونے دے گا اور جس کام میں امریکا کا مفاد ہے چین اسے کیسے ہضم کرے گا، یہ اور بات ہے کہ ایسا کوئی کام جیسا بنگلا دیش میں ہورہا تھا، تینوں کے علم میں بھی ہو تو انہوں نے اسے ہونے دیا کیونکہ بھارت کا گھیرا تنگ کرنے کے لیے چین کو بنگلا دیش میں گرفت کی ضرورت ہے، پاکستان کو بھی بھارت پر دباؤ کے لیے بنگلا دیش میں نفوذ چاہیے، اور اب اس کے راستے کھل رہے ہیں، اسی طرح امریکا بھارت کے بڑھتے ہوئے قد کو مناسب سائز میں لانے کے لیے بنگلا دیش کی اس تبدیلی کا فائدہ اٹھائے گا، لیکن یہ کہنا کہ تینوں نے مل کر حکومت گرائی ہے، درست تجزیہ نہیں لگتا ہے، بلکہ اگر بھارتی حکومت اس پر یقین کرکے کوئی پالیسی وضع کرلے تو اس کے لیے مشکلات کھڑی ہوجائیں گی، وہ تو چین کے خلاف امریکا کا سہارا لیتا ہے۔

اب آتے ہیں بخشی صاحب کی اللہ بخشے بڑی بڑی پھلجھڑیوں کی طرف، انہوں نے سی آئی اے، آئی ایس آئی اور چین کی ملی بھگت کی کہانی پھینکی اور امریکا کی جانب سے مداخلت کی بات کی ہے، وہ بنگلا دیشی فوج کو بھی اس طرح اپنا دشمن ہی قرار دے رہے ہیں، حکومتوں کی اس انداز میں تبدیلی میں عموماً اور تیسری دنیا اور اسلامی ممالک مین خصوصاً فوج کا رول ہوتا ہے اور بنگلا دیش کی پوری تبدیلی میں فوج کی رضا مندی رہی ہے یا منصوبہ بندی۔

بھارتی تجزیہ نگار صرف بھارت کا غصہ نہیں نکال رہے ہیں بلکہ یہ شور اس لیے مچارہے ہیں کہ پاکستان اور چین اس سے فائدہ نہ اٹھائیں اور امریکا ایک حد سے آگے نہ بڑھے، دیکھنا یہ ہے کہ کون کتنا فائدہ اٹھا سکتا ہے، چین نے تو کئی قدم آگے بڑھ کر بنگلا دیش میں بھاری سرمایہ کاری کی پیشکش کردی ہے۔ چین جیسا ملک کسی عارضی سیٹ اپ میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کی بات نہیں کرسکتا، اس سے بھی لگتا ہے کہ یہ عبوری دور لا محدود ہوگا۔ اس مسئلے ہی کو دیکھ لیں کہ بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے پراسیکیوٹر نے بھارت سے حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم پر جنگی جرائم کے تحت مقدمات درج ہیں۔ بنگلادیش نے بھارت سے سابق وزیراعظم حسینہ واجد کی حوالگی کے لیے قانونی عمل کا آغاز کردیاہے۔ بنگلادیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل (آئی سی ٹی) نے کہا ہے کہ سابق بنگلادیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کو بھارت سے بنگلادیش واپس لانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے کہا کہ شیخ حسینہ عوامی احتجاج کے دوران ہونے والے قتل عام کے الزام میں مطلوب ہیں، چونکہ مرکزی ملزمہ ملک سے فرار ہو چکی ہیں تو ہم انہیں واپس لانے کے لیے قانونی کارروائی شروع کریں گے۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے چیف پراسیکیوٹر نے کہا کہ حسینہ واجد ملک میں اپوزیشن جماعتوں اور مخالفین کے قتل عام میں ملوث رہی ہیں۔ انہیں قرار واقعی سزا دلائیں گے۔ خیال رہے کہ بنگلا دیش کا بھارت کے ساتھ مجرمان کی حوالگی کا معاہدہ ہے جس پر 2013ء میں دستخط کیے گئے تھے۔ اور یہ دور حسینہ کا ہے، تاہم معاہدے کی ایک شق کے تحت اگر جرم ’’سیاسی نوعیت‘‘ کا ہو تو حوالگی سے انکار کیا جا سکتا ہے لیکن ٹریبونل اسے جنگی جرائم کا کیس بنا رہا ہے جو بنگلا دیش میں حسینہ کی حکومت میں مقبول تھا، جس طرح یہ معاہدہ شیخ حسینہ کی حکومت میں طے پایا تھا۔ اسی طرح انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل بھی 2010ء میں حسینہ واجد ہی نے 1971ء کی جنگ کے دوران ہونے والے مظالم کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا اور اس کے تحت جماعت اسلامی کے کئی رہنمائوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ عبوری رہنما محمد یونس نے بھی گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ حسینہ واجد کو بھارت میں جلاوطنی کے دوران خاموش رہنا چاہیے جب تک انہیں مقدمے کے لیے وطن واپس نہ لایا جائے۔ اقوام متحدہ کی فیکٹ فائنڈنگ یا تحقیقاتی ٹیم بھی بنگلادیش میں حسینہ واجد کے جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے جلد ہی ڈھاکا پہنچے گی۔ یہ ساری باتیں اشارہ کررہی ہیں کہ یہ عبوری دور طویل ہوگا، کیونکہ حسینہ کی حوالگی اور ٹریبونل میں مقدمہ چلنا، فیصلہ ہونا عملدرآمد وغیرہ میں کئی سال لگ سکتے ہیں، اسی طرح چینی سرمایہ کاری بھی دوچار ماہ کی بات نہیں۔ اصل بات پاکستان کی ہے اس کے حکمران کیا کررہے ہیں؟ سب سے زیادہ خوشی تو پاکستان کو ہونی چاہیے تھی لیکن ایک مردنی سی چھائی ہوئی نظر آتی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بنگلا دیش میں تبدیلی سے فائدہ اٹھانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے بلکہ الٹا دفاعی پوزیشن میں ہیں۔ اور یہی بھارت چاہتا ہے، یہاں مردنی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پاکستان میں تو آر ٹی ایس بٹھا کر اور فارم 47 کے ذریعے جماعت اسلامی کو پارلیمنٹ سے باہر کر دیا بنگلا دیش میں یہ کام کیسے کریں گے، کیونکہ کہیں بھی جماعت اسلامی کو فائدہ ہونے پر۔ رہیں کسی اور کو لگتی ہیں، کیوں؟؟ اس کا پتا تو سب کو ہے، لیکن بول نہیں سکتا، بنگلا دیش میں چین کو تو بھارت نہیں روک سکا لیکن پاکستانی حکمران فارم 47 اور قیدی نمبر 804 کے درمیان گھرے ہوئے آئی ایم ایف کے در پہ سجدہ ریز ہیں۔ قومی مفاد کیا ہوتا ہے کسی کے ذہن میں نہیں ہے یا ترجیحات میں نہیں ہے، پاکستان کو آگے بڑھ کر بنگلا دیش میں اپنی جڑیں مضبوط کرنی چاہئیں۔ یہ ملکی مفاد بھی ہے اور خطے میں بھارتی بالادستی کو روکنے کے لیے بھی ضروری ہے۔