تباہ حال معیشت کو سنبھالنے کیلیے شرح سود میں 2فیصد کمی ناکافی ہے، فیڈریشن چیمبر

222

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اپریل 2020 کے بعد سب سے زیادہ کمی کرتے ہوئے اہم پالیسی ریٹ کو 200 بیسس پوائنٹس (بی پی ایس) کم کرکے 17.5 فیصد کردیا ہے جو کہ افراط زر میں کمی اور تیل کی عالمی قیمتوں کے درمیان ہے۔جمعرات کو اپنے اجلاس میں ایم پی سی نے پالیسی ریٹ کو 200 بی پی ایس کم کرکے 17.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اطلاق 13 ستمبر 2024 سے ہوگا۔مرکزی بینک نے اطلاق کی تاریخ کو پالیسی ریٹ میں کیوں وضاحت کی اس بارے میںمزید تفصیل کی وضاحت نہیں کی گئی ہے لیکن اس سے پتا چلتا ہے کہ نئی شرح اس سے قبل کے قرض پر نافذالعمل نہیں ہو گا ۔اس بارے میں مزید وضاحت صرف اسٹیٹ بینک ہی کر سکتی ہے
صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے آگاہ کیا ہے کہ پاکستان بھر کی کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری مانیٹری پالیسی سے مایوس ہے کیونکہ یہ بنیادی افراط زر کی بہ نسبت ابھی بھی بھاری پریمیم پر مبنی ہے۔ اگرچہ ایف پی سی سی آئی 200 بیسس پوائنٹ یا 2 فیصد کی کمی کو ویلکم کرتی ہے؛ لیکن یہ کمی مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ہو نے والی اشیاء کی قیمتو ں میں گرا وٹ کے مقابلے میں بہت نا کافی اوربہت وقت ضائع کرنے کے بعد کی گئی ہے ۔عاطف اکرام شیخ نے نشاندہی کی کہ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (PBS) کے ذریعے حکومت کے اپنے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اگست 2024 کے دوران پاکستان میں بنیادی مہنگائی کی شر ح 9.6 فیصد تک پہنچ گئی۔ لہذا، بنیادی افراط زر کے مقابلے میں موجودہ شرح سود میں کمی کے بعد بھی حقیقی سود کی شرح 790 بیسس پوائنٹ سے پلس ہے؛ جو کہ ایک کاروبار مخالف اور معا شی ترقی کے مخالف عمل ہے ۔صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے مزید کہا کہ مارکیٹ کے اندازوں کے مطابق ستمبر 2024 کے لیے بنیادی افراط زر تقریباً 8.0 فیصد کے قریب ہونے جا رہا ہے۔مزید برآں، تیل کی بین الاقوامی قیمتیں 3 سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہیں اوررواں ہفتے کے دوران 70 ڈالر فی بیرل سے کم ہوگئی ہیں۔لہذا ، حکام کے پاس شر ح سود میںخاطر خواہ کمی کا اعلان کرنے کے لیے تمام ضروری لوازمات موجود تھے۔ لیکن پھر بھی رجعت پسند، غیر پیداواری اور معا شی سرگرمیوں پر منفی اثر انداز ہونے والی ما نیٹری پالیسی کو جاری ر کھا گیاہے
حکومت اور مرکزی بینک کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران ہیڈ لائن اور بنیادی افراط زر دونوں میں ہی تیزی سے کمی آئی ہے۔ افراط زر میں کمی کی رفتار کمیٹی کی سابقہ توقعات سے کچھ زیادہ ہے جس کی بنیادی وجہ توانائی کی قیمتوں میں منصوبہ بند اضافے پر عمل درآمد میں تاخیر اور تیل اور خوراک کی عالمی قیمتوں میں سازگار اتار چڑھاو ¿ ہے۔جون میں 150 بی پی ایس کی کمی اور جولائی کے آخر میں مزید 100 بی پی ایس کی کمی کے بعد اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں یہ مسلسل تیسری کمی ہے۔ اپریل 2020 میں وبائی امراض کے دوران اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 200 بی پی ایس کی کمی کی تھی۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بنیادی شرح سود 11 سے کم کرکے 9 فیصد کردیا گیا تھا۔تاہم ایم پی سی نے کہا کہ اب بھی ایک فطری غیر یقینی صورتحال ہے جو محتاط مانیٹری پالیسی کے موقف کی ضرورت کو جواز فراہم کرتی ہے۔کمیٹی کے مطابق اس حوالے سے کمیٹی نے گزشتہ برس کے دوران افراط زر میں مسلسل کمی لانے کیلئے سخت مانیٹری پالیسی کے موقف کی اہمیت پر زور دیا۔تیل کی قیمتوں میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری سمیت مثبت پیش رفت کا حوالہ دیتے ہوئے ایم پی سی نے اندازہ لگایا کہ حقیقی شرح سود اب بھی کافی حد تک مثبت ہے تاکہ افراط زر کو درمیانی مدت کے ہدف 5 سے 7 فیصد تک لایا جاسکے اور میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے میں مدد مل سکے۔
انھیں وجوہات کی بنیاد پر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے قائم مقام صدر الطاف اے غفار نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں 2 فیصد کمی کرکے 17.5 فیصد کرنے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ کے سی سی آئی کو شرح سود میں کم از کم 5 فیصد کمی کی توقع تھی لیکن اس میں صرف 2 فیصد کمی کی گئی ہے جو نہ تو کافی ہے اور نہ ہی مہنگائی کے گرتے ہوئے رجحان کے مطابق ہے جو سنگل ڈیجٹ پر آ گئی ہے۔200 بیسس پوائنٹس کی کمی کے ساتھ پالیسی ریٹ اب17.5 فیصد ہے جو کہ اب بھی بہت زیادہ ہے لہٰذا اسے زیادہ جارحانہ انداز میں کم کرنا چاہیے تاکہ اسے فوری طور پر سنگل ڈیجٹ پر لاتے ہوئے 7 سے 8 فیصد کے درمیان کردیا جائے جو خطے اور دنیا کے دیگر ممالک کے برابر ہے۔ایک بیان میں قا ئم مقام صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ تاجر برادری سود کی شرح کو سنگل ڈیجیٹ پر دیکھنا چاہتی ہے جس سے یقینی طور پر قرضے لینے کی حوصلہ افزائی ہو گی اور کاروباری لاگت میں کمی کی وجہ سے توسیع کو فروغ ملے گا جو یقیناً معیشت کے لیے سازگار ثابت ہوگا۔
پاکستان بزنس گروپ کے بانی اور چیئرمین فراز الرحمان نے کہا ہے کہ معاشی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ ہم سودی نظام سے چھٹکارا حاصل کریں۔ سود اللہ اور اس کے رسول ؐکے ساتھ جنگ کے مترادف ہے، اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس سے بچے۔ فراز الرحمان نے سپریم کورٹ کے سود کے خلاف فیصلے کو ایک اہم موڑ قرار دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ مالیاتی ادارے ابھی تک اس فیصلے پر عملدرآمد میں ناکام رہے ہیں۔فراز الرحمان نے زور دیا کہ اسلامی بینکاری نہ صرف شرعی تقاضوں کے مطابق ہے بلکہ یہ ملکی معیشت کے استحکام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی بینکاری نظام سے نہ صرف غربت میں کمی ممکن ہے بلکہ سرمایہ کاری میں اضافہ بھی ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکے گا جو کہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور خود کفالت کی طرف اہم قدم ہو گا۔انہوں نے مزید کہا کہ سود سے پاک نظام کے تحت کاروباری افراد کو آسان شرائط پر مالیاتی مدد فراہم کی جا سکتی ہے جس سے کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملے گااور معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گی۔ فراز الرحمان نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کو فوری طور پر سودی نظام کے خاتمے کیلئے ٹھوس اور مو ¿ثر پالیسیوں کا نفاذ کرے تاکہ ملک کو معاشی تباہی سے بچایا جا سکے۔فراز الرحمان نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ مالیاتی اداروں کو سود سے پاک کرنے کیلئے ایک واضح اور جامع لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے اور اس سلسلے میں فوری اور عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔
مرکزی بینک کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے گرتی ہوئی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آو ؤٹ پیکج کے تحت سخت اصلاحات نافذ کرنے کے بعد گزشتہ دو سالوں میں پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کی رفتار میں کمی آئی ہے۔تاہم یہ مرحلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے کیونکہ اسلام آباد نے اس سال کے اوائل میں ایک مختصر مدتی پروگرام مکمل کرنے کے بعد واشنگٹن میں قائم قرض دہندہ کے ساتھ ایک بار پھر طویل مدتی بیل آؤٹ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔جولائی میں آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام نے 37 ماہ کی مدت پر مشتمل 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے لیے عملے کی سطح کے معاہدے (ایس ایل اے) پر دستخط کیے تھے جس کا مقصد جامع استحکام اور ترقی کا فروغ ہے۔مارکیٹ فی الحال ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کا انتظار کر رہی ہے۔ تاہم پاکستان کو آئی ایم ایف کے 18 ستمبر تک ہونے والے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے بد ترین صورتحال کے باجود پاکستان کی حکومت نہ جانے کیوں پاکستان کی عوام پر مزید ٹیکس کا بوجھ لاد رہا ہے اور اب یہ حکومتی ارکان نئے منی بجٹ کی تیاری کر رہے ہیں لیکن اطلاعات یہی ہیں کہ آئی ایم ایف رواں سال 30نومبر تک پاکستان کو قرض دینے کے لیے قطعی تیا رنہیں ہے ۔
nn