وزیر اعظم کے ارشادات اور زمینی حقائق

202

وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے پائوں پر کھڑے ہو کر قرضوں سے جان چھڑانا ہو گی۔ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں لیکن ہر روز قرصوں کی درخواستوں سے ہماری قومی اہمیت میں کمی ہوتی ہے… اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے، اس حوالے سے دوست ممالک نے ایک بار پھر بھائیوں والا ساتھ دیا ہے۔ دعا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ آخری پروگرام ہو۔ زری پالیسی کمیٹی کے جمعرات کو منعقدہ اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ اسٹیٹ بنک نے شرح سود میں تیرہ ستمبر سے دو فیصد کمی کر کے نئی شرح 17.5 فیصد مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو خوش آئند ہے انہوں نے دعا کی کہ اللہ کرے سود کی پالیسی شرح بھی مہنگائی کی طرح ایک ہندسے پر آ جائے تاکہ ملک میں معاشی سرگرمیاں پھل پھول سکیں۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی اس بات سے اختلاف ممکن نہیں کہ ہمیں اپنے پائوں پر کھڑے ہو کر قرضوںسے جان چھڑانا ہو گی کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور ہر روز قرضوں کی درخواستوں سے ہماری اہمیت میں کمی ہوتی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر حقیقت یہ ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم عالمی برادری میں ایک بھکاری کی طرح ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے… بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور اس جیسے دیگر اداروں ہی نہیں اپنا اعتماد بحال کروانے کے لیے مختلف دوست ممالک کی بھی منت سماجت کرنا پڑتی ہے کہ وہ ہمارے واجب الادا قرضوں کی مدت ادائیگی میں مہلت دے دیں، یہ مہلت اگر مل بھی جائے تو بہرحال قومی عزت اور وقار تو بری طرح پامال ہوتے ہیں اور ان قرضوں کی مدت میں توسیع سے سود کا حجم بھی کئی گنابڑھ جاتا ہے جس کی ادائیگی پہلے ہی ہماری معیشت کے لیے ناقابل برداشت بوجھ بن چکی ہے اور ہماری سالانہ قومی آمدن کا ایک بڑا حصہ ماضی کے قرضوں کے صرف سود کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا ہے… جناب وزیر اعظم کی اس دعا پر بھی آمین کہے بغیر چارہ نہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ آخری پروگرام ہو۔ تاہم یہاں ہم یہ گزارش کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وزیر اعظم کو اپنی اس دعا کو حقیقت کے روپ میں دیکھنے کے لیے حکومتی سطح پر بھی محض دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ ٹھوس عملی اقدامات کرنا ہو ںگے… اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ قدرتی معدنی وسائل سے نوازا ہے جب کہ ہماری نصف سے زائد آبادی با صلاحیت نوجوانوں پر مشتمل ہے دنیا میں بہت کم ملکوں کو یہ افرادی قوت دستیاب ہے۔ ضرورت ہے کہ ان قدرتی وسائل اور زبردست افرادی قوت سے استفادہ کے لیے موثر منصوبہ بندی کے ساتھ منظم و متحرک قوم کی حیثیت سے آگے بڑھا جائے اگر ہم اپنے ان دستیاب وسائل کو درست انداز میں استعمال کرنے کی منصوبہ بندی اور مطلوبہ اقدامات روبہ عمل لانے میں کامیاب ہو جائیں تو ملک بہت جلد وزیر اعظم کے آئی ایم ایف سے نجات کے خواب کی تعبیر دیکھنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی اشد ضرورت ہے کہ اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کی پالیسی قومی اور عوامی سطح پر اختیار کی جائے۔ وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں سرکاری سطح پر اخراجات میں بچت مہم شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اس کے لیے بعض غیر ضروری سرکاری محکموں کے خاتمہ اور نچلے درجے کے ملازمین کی خالی آسامیاں ختم کر کے ان پر بھرتی نہ کرنے کا اعلان کیا گیا مگر اب یہ اطلاعات ہیں کہ فورسز اور سیکیورٹی اداروں کو اس پابندی سے استثنیٰ دے کر گریڈ ایک سے سولہ تک کی خالی اسامیوں پر بھرتی کی اجازت دے دی گئی ہے ، حکومت نے ایک قدم مزید آگے جاتے ہوئے ان بھرتیوں کے لیے وزارت خزانہ کی کفایت شعاری کمیٹی کی منظوری سے بھی استثنیٰ دے دیا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق صرف وزارت داخلہ کے تحت سول آرمڈ فورسز میں گریڈ ایک سے سولہ تک کی سولہ ہزار سے زائد آسامیاں خالی ہیں۔ وزارت خزانہ کے احکام کے مطابق اب تک وفاقی وزارتوں، ڈویژنوں اور محکموں میں ایسی خالی اسامیوں پر بھرتی کے لیے کفایت شعاری کمیٹی کی منظوری لازم تھی مگر اب مسلح افواج، سول آرمڈ فورسز، سیکیورٹی فورسز قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کو ان خالی اسامیوں پر بھرتی کی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس چھوٹ، اجازت اور استثنیٰ کے لیے کئی جواز فراہم کئے جا سکتے ہیں مگر کفایت شعاری کی ایسی مہمات کو کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے بہتر یہی ہے کہ ایسے مستثنیات کے دروازے کھولنے سے حتی الامکان گریز کیا جائے…!

وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور ان کی حکومت اگر واقعی ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے، قرضوں سے نجات دلانے اور کفایت شعاری میں سنجیدہ ہیں تو اس نیک کام کا آغاز اوپر سے کیا جانا چاہئے اور سب سے پہلے ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کے بے تحاشا اخراجات میں کمی لانے پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے مگر اخباری اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم کی کفایت شعاری مہم کے اعلان کے بعد ایوان وزیر اعظم کے بجٹ میں اضافہ کر دیا گیا ہے وزیر اعظم کو اس کا نوٹس لے کر اپنی ذات کو نمونے کے طور پر قوم کے سامنے پیش کرنا چاہئے جس کی پیروی حکومت کے دیگر عہدیدار، ارکان اسمبلی، جج حضرات، اعلیٰ سول و فوجی افسران اور مختلف خود مختار اداروں کے حکام سے بھی کروائی جائے، ان میں سے جس جس کو بھی اشیائے تعیش ٹیکس فری درآمد کرنے کا استحقاق حاصل ہے ان سے یہ استحقاق واپس لیا جائے، ان کو فراہم کی جانے والی سرکاری مراعات، مہنگی اور پر آسائش گاڑیاں واپس لی جائیں، ان کی رہائش گاہوں اور دفاتر کو سادہ بنایا جائے اور عام لوگوں کی طرح رہن سہن کا عادی بنایا جائے، عام سرکاری ملازمین کی طرح اپنی جیب سے پٹرول، بجلی و گیس وغیرہ کے بلوں کی ادائیگی کا پابند کیا جائے، حکمرانوں اور حکام سے پروٹوکول اور سیکیورٹی کے نام پر فراہم کی گئی شاہانہ مراعات واپس لے کر قومی خزانے پر بلا جواز بوجھ ختم کیا جائے تو وطن عزیز وزیر اعظم کی خواہش کے مطابق کچھ ہی عرصہ میں اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکتا ہے اور بیرونی قرضوں سے بھی چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور ملک و قوم کی عزت اور وقار بھی عالمی برادری میں بحال ہونے میں دیر نہیں لگے گی…!!

جہاں تک وزیر اعظم کی اس دعا کا تعلق ہے کہ ’’اللہ کرے سود کی شرح بھی مہنگائی کی طرح ایک ہندسے پر آ جائے تاکہ ملک میں معاشی سرگرمیاں پھل پھول سکیں…‘‘ وزیر اعظم کی اس دعا سے اتفاق کیا جا سکتا ہے نہ اس پر ’’آمین‘‘ کہنے کی کوئی گنجائش موجودہے کیونکہ یہ قرآن و سنت، آئین پاکستان اور وفاقی شرعی عدالت کے میاں شہباز شریف ہی کے دور اقتدار میں دیئے گئے فیصلے کی کھلی کھلی خلاف ورزی پر مبنی ہے، سود کو اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں حرام قرار دیا ہے، تجارت کو فروغ اور سود کا مٹھ مارنے کا واضح فیصلہ قرآن حکیم میں سنایا گیا ہے اور سودی کاروبار کو اللہ رسولؐ سے جنگ بتایا گیا ہے… اس جنگ کے جاری رہتے ہوئے ترقی و فلاح کی توقع عبث ہے، سود کی شرح ایک فیصد ہو یا اس سے بھی کم تر ہو بہرحال یہ حرام ہے اور اس کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی معیشت پر مسلط رکھ کر معاشی ترقی و خوش حالی یا معاشرتی، امن و سکون کسی طور ممکن نہیں… جنگ رہے اور امن بھی ہو… یہ بھلا کیسے ممکن ہے…؟؟؟