راولپنڈی(مانیٹرنگ ڈیسک) بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کو اسٹیبلشمنٹ نے غائب کیا وہ ان کی لاج رکھ رہا ہے بول نہیں رہا۔اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں یحییٰ خان پارٹ ٹو موجود ہے یحییٰ خان نے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے خلاف آپریشن کیا، یحییٰ خان پارٹ ٹو ملک کے ادارے تباہ کر رہا ہے، پولیس اور ماتحت عدلیہ سے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے، گزشتہ دنوں جج نے تین گھنٹے ہدایات لے کر بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ دیا۔انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کا فوج اور عدلیہ سمیت کسی بھی عہدے پر توسیع نہ دینے کا بیان خوش آئند ہے ،شکر ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ وہ کسی بھی توسیع کو نہیں مانتے، نواز شریف نے پہلے ڈنڈوں سے سپریم کورٹ پر حملہ کیا اور اب جج کو توسیع دے کر عدلیہ پر حملہ آور ہونے جا رہے ہیں، قاضی فائز عیسیٰ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انتخابی دھاندلیوں کو تحفظ دے رہا ہے ،اسی کے انعام میں قاضی فائز عیسی کو توسیع دینے کی کوشش ہو
رہی ہے جب آپ عدلیہ پر حاوی ہوں گے تو ملک تباہ ہوجائے گا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ سنگاپور میں 140 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی، پاکستان میں ایک ارب ڈالر سے بھی کم سرمایہ کاری آئی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ کاری وہاں آتی ہے جہاں قانون کی بالادستی ہوتی ہے، ججز کو دھمکیاں مل رہی ہیں عدالتی نظام کو تباہ کیا جا رہا ہے، بیرون ملک مقیم ایک کروڑ پاکستانی ہی وطن کا مستقبل ہیں بیرون ملک مقیم پاکستانی ہی ملک کو بچا سکتے ہیں، آئی ایم ایف سے تب آزاد ہوں گے جب بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک میں سرمایہ کاری کریں گے۔بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کو اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں نے غائب کیا کسی کو نہیں پتا تھا کہ وہ کہاں گیا؟ سب کو پتا ہے کہ اس ملک میں کون لوگوں کو اٹھاتا ہے، علی امین گنڈاپور لاج رکھ رہا ہے بول نہیں رہا، ہم واحد وفاقی پارٹی ہیں اور ملک کو اکٹھا رکھ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کو وزیراعظم کہنے کا کوئی فائدہ نہیں وہ ہر چیز کے لیے این او سی لیتا ہے کیا پتا کل اس کو بھی غائب کر دیں۔عمران خان نے کہا کہ ڈیڑھ سال سے توشہ خانہ کا کیس سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو رہا، تین مرتبہ جلد سماعت کی درخواست دے چکے ہیں مگر اس کے باوجود سماعت نہیں ہوئی، سپریم کورٹ اگر توشہ خانہ کے کیس کو سن لے تو باقی توشہ خانہ کے سارے کیسز ختم ہو جائیں گے حالاں کہ الیکشن کمیشن کے کیسز تو ایک دم سماعت کے لیے مقرر کر دیے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا سربراہ سکندر سلطان گیند پھینکتا ہے ایک سلپ میں قاضی فائز عیسیٰ کھڑا ہے تو دوسری سلپ میں جسٹس عامر فاروق موجود ہے، ہمارے ساتھ تو یہ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے دور حکومت میں پرویز خٹک کو افغانستان بھیجا تھا، علی امین گنڈا پور کے موقف کی حمایت کرتا ہوں وہ بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے اور میں علی امین کے افغانستان سے مذاکرات کے بیان کی تائید کرتا ہوں، انہیں تو علی امین گنڈا پور کے پاؤں پکڑنے چاہییں کہ جاکر مذاکرات کرو۔صحافی نے سوال کیا کہ ملک میں وفاقی حکومت اور دفتر خارجہ موجودہ ہیں تو صوبائی حکومت کیسے دوسرے ملک سے براہ راست بات کرسکتی ہے؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ دفتر خارجہ کو چھوڑیں، خیبر پختونخوا دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہے، بلاول زرداری جب وزیر خارجہ تھا تو وہ افغانستان گیا تک نہیں، خیبر پختون خوا میں پولیس کے کتنے لوگ شہید ہو چکے ہیں ،پولیس اہلکار بغاوت پر اترے ہوئے ہیں ،ہر جگہ پولیس احتجاج کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ 24 سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ پہلی ترجیح ہونا چاہیے، دہشت گردی کو کنٹرول نہ کیا گیا تو ملکی معیشت چوک ہوجائے گی۔ جب تک افغانستان سے تعلقات درست نہیں کریں گے دہشت گردی میں پھنسے رہیں گے۔علی امین گنڈاپور کے خیبر پختون خوا کو آزاد کرانے کے بیان سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کہہ ہی نہیں سکتا کہ خیبر پختون خوا کو آزاد کروانا ہے میں یہ مانتا ہی نہیں۔صحافی نے سوال کیا کہ اگر آپ وزیراعظم ہوتے اور وزیراعلی خیبر پختون خوا آپ کی اجازت کے بغیر افغانستان سے بات چیت کی بات کرتا تو آپ کیا کرتے؟ عمران خان نے کہا کہ میں ضرور بات چیت کی اجازت دیتا ،وجہ یہ ہے کہ خیبر پختون خوا میں پولیس جب خود کو بچانے لگ جائے گی تو لوگوں کو کون بچائے گا۔صحافی نے پوچھا کہ آپ نے کہا اسٹیبلشمنٹ نے دھوکا دیا وہ دھوکا کیا تھا؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ جیل میں چڑیا پر نہیں مار سکتی ،اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر اعظم سواتی اور بیرسٹر گوہر صبح سات بجے جیل آئے، اسٹیبلشمنٹ کا پیغام دیا گیا کہ ملک کی خاطر جلسہ ملتوی کیا جائے، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ہی آٹھ ستمبر کی تاریخ دی گئی اور کہا گیا کہ تمام سہولیات دی جائیں گی مگر آٹھ ستمبر کو جو ہمارے ساتھ ہوا اس سے بڑا دھوکا اور کیا ہوگا؟