ڈپٹی کمشنر پورے ضلع کا مالک ہوتا ہے۔ انگریز دور میں تو ڈپٹی کمشنر کے اختیارات اور شان ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ فرق آگیا ہے تاہم آج بھی اگر ڈپٹی کمشنر چاہے تو کوئی شہری پر نہیں مار سکتا۔ ایک کہاوت ہے، سچی ہے یا کسی نے گھڑی ہے اس کا تو علم نہیں تاہم یہ کہاوت اکثر سنائی جاتی ہے، کسی زمانے میں ڈپٹی کمشنر صاحب کسی بات پر غصہ میں تھے انہوں نے شہر کے چودھریوں کو بلا بھیجا، جو بھی چودھری ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کے بعد اس کے دفتر سے باہر نکلتا وہ اپنی پگڑی باندھتا ہوا نکلتا، مقصد یہ تھا کہ دفتر کے اندر ملاقات کے دوران ڈپٹی کمشنر صاحب نے اس کی پگڑی اُتار کر اس کی تواضع کی ہوتی تھی۔ جو بھی نکلتا سب پگڑی باندھتے ہوئے نکلتا اور پوچھنے پر بتاتا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے ان سے ’’پگ‘‘ کی لمبائی پوچھی تھی اس لیے کھول کر بتانا پڑا۔ لوگ سمجھتے ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو، مگر جو سیانے تھے انہیں معلوم ہوتا تھا کہ چودھری صاحب کی خوب ’’تواضع‘‘ ہوئی ہے۔
کچھ اس سے ملتا جلتا واقعہ اسلام آباد میں ہوا‘ آٹھ ستمبر کو تحریک انصاف کا اسلام آباد میں سنگجانی کے مقام پر جلسہ تھا، مقررین خوب گرجے اور برسے، ایک راہنماء نے تو حد ہی کردی؛ کہا کہ لشکر لے کر پنجاب جائیں گے، جیل توڑ کر اپنے لیڈر کو رہا کرائیں گے اور بھی بہت کچھ کہا گیا لیکن جس نے بھی جلسہ میں سخت زبان استعمال کی، حد سے باہر نکل کر کھیلے، ان سب کی خوب کلاس ہوئی ہے۔ مطلب ایسی کلاس کہ سر کی پگڑی اُتار کر اس ’’پگ‘‘ کا سائز پوچھا گیا ہے۔ اب کوئی مانتا ہے کوئی نہیں مانتا لیکن ہوا یہی کچھ ہے۔ چلیے ہمیں کیا؟ ’’جناں کھادیاں گاجراں ٹڈ اینا دے پیڑ‘‘۔
خیر ہمیں تو ہمدردی ہے ہر اس شخص کے ساتھ جس کی بھی پگڑی کا سائز معلوم کیا گیا ہے اور ہاں جب کسی کی پگڑی کا سائز اسلام آباد میں معلوم کیا جاتا ہے تو یہ سودا بڑا ہی مہنگا ہوتا ہے۔ یہ سودا اس قدر مہنگا ہوتا ہے کہ وزارت عظمیٰ سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتے ہیں۔ نئی دنیا آباد ہوتی ہے، نئے نقوش ابھرتے ہیں، کسی کی زندگی بدل جاتی اور کسی کی سیاست کا انداز بدل جاتا ہے، کوئی دھیما لہجہ اختیار کرلیتا ہے اور کوئی سیاست ہی سے کنارا کش ہوجاتا ہے۔ تاہم اس کا انحصار تواضع پر ہوتا ہے اس کا اسکیل کیا تھا؟ ریکٹر اسکیل پر اس تواضع کی شدت کیا تھی‘ ہمارے ملک میں کتنے سیاست دان ہیں جو اپنے قد پر کھڑے ہیں۔ گنتی کے چند لوگ ہیں۔ اکثریت ایسی ہے کہ اپنے پائوں ہیں اور نہ سر نہ دھڑ‘ جیسا کسی نے بنا دیا صبر شکر کرکے اسی ڈھانچے کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ ہمارے ملک کا سیاست دان اصل میں خوش ہی تب ہوتا ہے جب وہ کسی کلے کے ساتھ باندھ دیا جائے۔ ایوب خان ایبڈو لے کر آئے تھے اور اس وقت یہ اعلان ہوا تھا کہ کنے کنے جانا اے بلو دے گھر، ٹکٹ کٹائو لائن بنائو۔ یہ اعلان ہوتے ہی بہت بڑی تعداد اس گاڑی پر سوار ہوگئی جو انہیں سیدھا اسمبلی میں لے گئی‘ جو سوار نہیں ہوئے ان کا حشر دنیا نے دیکھا۔ ان کی سیاست تباہ ہوگئی اور کاروبار برباد اس کے بعد ضیاء صاحب آگئے۔ احتساب کا نعرہ لگایا اور سیاست دانوں کو سات سات سال تک نااہل قرار دے دیا لیکن جب سات سال کے بعد انتخابات کرائے تو اکثریت پھر اسمبلی میں آگئی یہی کچھ مشرف صاحب نے کیا‘ کہا کہ احتساب ہوگا‘ پھر کیا ہوا؟ مسلم لیگ کا ایک دھڑا الگ ہوا اور یہی دھڑا بعد میں حکومت میں آگیا‘ مشرف گئے تو یہ دھڑا بھی غائب ہوگیا لوگ جہاں سے آئے تھے وہیں واپس لوٹ گئے۔
اس بار ڈپٹی کمشنر کچھ ماضی سے بہت مختلف ہے اور لہجے کا دھیمہ پن رکھتا ہے مگر ہائی پوٹینسی ڈوز دیتا ہے اور واقعتا سخت مزاج کا ہے‘ اس نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے‘ کوئی سیاسی سفارش نہیں مان رہا۔ ڈپٹی کمشنر نے تو اپنے ہی قبیلہ کے ایک اہم رکن کو پکڑ رکھا ہے، ایک نہیں پورے دو سو افراد اس وقت پوچھ گچھ کے مرحلے سے گزرے ہیں۔ اُف کس قدر یہ سخت تفتیش ہے کہ خدا پناہ‘ جو نکل رہا ہے
اپنا آدھا وزن تفتیشی کے پاس ہی چھوڑ کر نکل رہا ہے‘ دور سے ہی پتا چلتا ہے اور صاف صاف پتا چلتا ہے کہ بھائی صاحب تفتیش بھگتا کر آئے ہیں۔ تفتیش کے دوران بڑی تگڑی دوا کی خوراک ملتی ہے۔ ایسی خوراک کہ تادیر اثر رہتا ہے زبان درازی کی بیماری کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہو‘ بس ایک حد دو خوراکیں کافی ہیں۔ مستقبل میں کیا ہوگا؟ کچھ پتا نہیں تاہم یہ ضرور کہا جارہا ہے کہ یہ کوئی کاغذی تفتیش نہیں ہورہی‘ یوں سمجھ لیجیے کہ سر تو کئی سال پہلے منڈھوایا تھا اولے اب آکر پڑے ہیں۔ سیاسی مصلحت سیاسی رشوت کا دوسرا نام ہے آج کل یہ کسی حد تک ناپید ہے۔ جھوٹ، فریب، فراڈ، حرص، سب کچھ باہر آرہا ہے۔ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ سامنے شمشیر برہنہ ہے؛ تلوار کی چمک ہی ایسی ہے کہ سارے نشے اُتر رہے ہیں یہ سب کچھ بہت جلد باضابطہ طور پر سامنے آجائے گا۔ ہاں البتہ اب ایک ہوگا اور بہت جلد ہوگا کہ ملک میں سیاست کا نقشہ بدل رہا ہے۔ زبان کا استعمال بہتر ہونے لگے گا۔ فضول اور بے بنیاد دعویٰ سب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور اسی دوا کو اپنا اثر دکھانا ہے جو تواضع کے وقت دی گئی ہے۔ مستقبل میں جب بھی جلسہ ہوا، اس میں زبان بہت بہتر استعمال ہوگی اور امکان یہی ہے کہ اب مزید کسی تواضع کی ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ سب کی پگڑیوں کا سائز معلوم ہوچکا ہے۔