بجلی کے نرخوں میں اضافہ

186

پاکستان اس وقت بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف مسلسل اس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت نے بحالی کا سفر شروع کردیا ہے لیکن اس کے اشارے کہیں بھی نظر نہیں آرہے۔ وزیراعظم یہ دعویٰ بھی کرچکے ہیں کہ انہوں نے معاشی بحالی کے لیے اپنی سیاست قربان کی ہے، یعنی آئی ایم ایف سے قرض کے معاہدے کی بحالی کے ذریعے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا ہے۔ اس دعوے کے حق میں کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے لیے تمام عوام دشمن شرائط پوری کرنے کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف سے بھی منظوری نہیں آئی ہے۔ آئی ایم ایف کے آئندہ ہونے والے اجلاس کا ایجنڈا بھی آگیا ہے جس میں ابھی پاکستان کے لیے قرض کا معاہدہ شامل نہیں ہے۔ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عملے کی سطح پر وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ ہوچکا ہے۔ صورت حال سے واقف ماہرین معیشت کے مطابق عملاً پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے کیونکہ پاکستان کے پاس قرض اور سود کی ادائیگی کے لیے زرمبادلہ یعنی ڈالر نہیں ہیں، معاشی پالیسی کے حوالے سے صرف ایک کام پر وزارت خزانہ کا ارتکاز ہے اور وہ یہ کہ ڈالر کے ذخائر بڑھائے جائیں لیکن آئی ایم ایف کے حکم پر جتنے اقدامات کیے گئے ہیں ان سے معاشی بحالی تو ایک طرف معاشی تباہی کی رفتار ہی تیز ہورہی ہے۔ زراعت، صنعت، تجارت سمیت معاشی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا ہے جو بحران میں مبتلا نہ ہو۔ زرمبادلہ کے ذخائر کے حصول کے دو ہی راستے ہیں ایک بیرون ملک پاکستانی تارکین وطن کی ترسیلات، دوسرے درآمدات اور برآمدات میں توازن کا قیام، اس لیے کہ درآمدات سے زرمبادلہ یعنی ڈالر باہر جاتا ہے، برآمدات سے زرمبادلہ ملک کے اندر آتا ہے، حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے حکم پر جو اقدامات کیے گئے ہیں انہوں نے برآمدات کو بھی متاثر کیا ہے۔ تازہ ترین خبر کے مطابق آئی ایم ایف نے برآمداتی صنعتوں کے لیے خصوصی زون قائم کرنے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ یعنی زرمبادلہ کے حصول کے لیے برآمداتی صنعتوں کو کسی قسم کی سہولتیں اور رعایات دینے پر بھی پابندی ہوگی۔ ڈالر کی شرح میں ہوش ربا اضافے کی وجہ سے روپے کی قوتِ خرید میں غیر معمولی کمی ہوگئی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کا آسمان سے باتیں کرنے کا محاورہ بھی حالات کی تصویر کشی سے قاصر ہے، توانائی یعنی بجلی کا مسئلہ پاکستان کے مسائل میں سے ایک مسئلہ تھا لیکن یہ مسئلہ سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ بجلی کے نرخوں نے حقیقی معنوں میں ہر طبقے کی زندگی اجیرن کردی ہے اس مسئلے پر جو پاکستان کا قومی مسئلہ نمبر ایک ہے کوئی بھی سیاسی جماعت آواز اٹھانے کو تیار نہیں ہے، تجارت و صنعت سے تعلق رکھنے والے ہر شعبے کے متعلقین چیخ رہے ہیں۔ آواز بلند کررہے ہیں لیکن ان کی آواز میں آواز ملانے والا نہیں تھا۔ صرف امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے اس مسئلے کو اٹھایا، وہ اس سے قبل کراچی میں کے الیکٹرک کی لوٹ مار کے خلاف تحریک چلا رہے تھے لیکن معلوم یہ ہوا کہ صرف کے الیکٹرک ہی نہیں پورا ملک آئی ایم ایف اور امریکا کے غلاموں کے ذریعے معیشت تباہ کرچکا ہے، اب نجی بجلی گھروں یعنی آئی پی پی کے بارے میں ہولناک انکشافات ہوئے ہیں اس نے معاشی تباہی کے ذمے داروں کو بے نقاب کردیا ہے۔ آئی پی پی کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ معاہدے کی تفصیلات ذرائع ابلاغ کے ایک محدود حلقے میں آئی تھیں لیکن اس مسئلے کو حافظ نعیم الرحمن نے قومی مسئلہ کے طور پر اٹھایا، صنعت کاروں کی تنظیم کے ایک رہنما اور سابق نگراں وزیر گوہر اعجاز نے بھی اس کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کیا لیکن اصل آگاہی حافظ نعیم الرحمن نے فراہم کی اور تاجروں، دکانداروں، صنعت کاروں اور کاشت کاروں کو ساتھ لے کر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 19 دنوں تک مسلسل دھرنا دیا، عوام اور سیاسی و سماجی کارکنوں کو متحرک کیا اور حکومت کو مجبور کیا کہ وہ بجلی کے نرخوں میں کمی کرے۔ آئی پی پی کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کو ختم کرے، تاجروں اور دکانداروں پر تاجر دوست اسکیم کے نام پر ظالمانہ ٹیکسوں کو ختم کرے، اس کے بعد اسی مسئلے پر یعنی بجلی کے اضافی بلوں کے خلاف 28 اگست کو بھرپور ہڑتال کی گئی۔ اتحادی حکومت پر جو فارم 45 کے ذریعے عوام کے مسترد لوگوں پر مشتمل ہے، اس پر دبائو بڑھا اور پنجاب میں حکومت نے دو ماہ کے لیے عبوری ریلیف دینے کا اعلان کیا۔ حکومت نے جماعت اسلامی کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا جس کے تحت 45 دن کے اندر بجلی کے بلوں کے نرخ کم کیے جائیں گے اور مہنگی بجلی پیدا کرنے کے بجائے سستی بجلی پیدا کی جائے گی۔ اب یہ مسئلہ صرف گھریلو صارفین ہی کا نہیں رہ گیا ہے بجلی کے نرخوں نے صنعت و تجارت کی پیداواری لاگت بھی بڑھادی ہے۔ جس کی وجہ سے صنعتیں بند ہورہی ہیں، حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے دھوکا دہی کی وارداتیں کررہی ہے، حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں کمی کرنے کے وعدے کے برعکس بجلی کے نرخوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے کے بعد گھریلو صارفین سمیت تجارتی اور صنعتی اور زرعی صارفین پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے نے صنعتی سرگرمیوں کو مفلوج کردیا ہے۔
آئی پی پی کے ساتھ ظالمانہ معاہدوں کی دوشقیں اس تباہی کا سب سے بڑا سبب ہے ایک یہ کہ نرخوں کا تعین ڈالر میں کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بڑھنے سے بجلی کے نرخ خود بخود بڑھ جاتے ہیں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ حکومت نے اس بات کی ضمانت بھی دی ہے کہ وہ بجلی گھروں کی پیداواری صلاحیت کی بھی ادائیگی کرے گی چاہے اتنی بجلی پیدا ہی نہیں کی گئی ہو۔ اس وجہ سے اب تک گھریلو طبقہ بالخصوص غریب اور متوسط افراد بجلی کے بل ادا کرنے سے قاصر تھے، اب کاروباری طبقہ بھی بجلی کے بل ادا کرنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ اس لیے بجلی کے نرخ قومی مسئلہ نمبر 1 ہے لیکن قومی اسمبلی، سینیٹ، اتحادی جماعتوں کے سربراہوں کی ملاقات سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان کش مکش میں یہ مسئلہ کہیں زیر بحث نہیں آرہا ہے۔ ماضی میں آئی ایم ایف اور امریکا کی غلامی اختیا رکرنے کا فیصلہ اب اپنے نتائج دکھا رہا ہے اور جس تباہی سے اہل نظر خبردار کررہے تھے وہ سامنے آگئی ہے۔ اس لیے تباہی کی اصل جڑ امریکا اور آئی ایم ایف کے غلام حکمران اور بدعنوان اشرافیہ کے خلاف عوامی انقلاب ناگزیر ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کوئی انقلاب نہیں آسکتا وہ حال ہی میں بنگلا دیش میں ہونے ولے واقعات سے سبق لیں۔ عوام کو وہاں ان کا حق ملا یا نہیں فرعونیت کے ساتھ اقتدار سے چمٹے ہوئے حکمرانوں کو رسوا ہوکر ملک سے بھاگنا پڑا اور یہ بھی انقلاب کا نقطہ ٔ آغاز ہو سکتا ہے۔