جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری میں زخمی ہونے والے فلسطینی زندگی بھر صحت یاب نہیں ہو سکتے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں افسوس ناک حقائق سے پردہ اٹھایا ہے، جس میں بتایا گیا ہے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط کی گئی جنگ میں اب تک کم و بیش ایک چوتھائی زخمی زندگی بھر کے لیے ذہنی و جسمانی کرب کا شکار بن چکے ہیں اور انہیں تاعمر اپنی زخموں اور ذہنی اذیت کے ساتھ گزارہ کرنا ہوگا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر سے شروع کیے گئے حملوں میں زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد کے ایک چوتھائی ایسے متاثرین ہیں جو جن کے زخم کبھی بھر نہیں سکیں گے، ان میں سے بیشتر ایسے افراد ہیں جن کے اعضا کاٹ دیے گئے ہیں، کئی ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے یا وہ کسی اور زخم کی وجہ سے زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئے ہیں۔ بڑی تعداد ایسے متاثرین کی بھی ہے جنہیں دماغی چوٹیں ہیں اور کئی بری طرح جھلس کر معذور ہو چکے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس طرح کے زخمیوں کے لیے زندگی گزارنا شدید اذیت کا سبب ہوگا۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس سب کے باوجود اسرائیلی حملوں کے ایسے متاثرین کو معاشری کا فعال حصہ بنانے کے لیے طویل عرصے تک ری ہیبیلٹیشن کی سروسز دی جائیں تو کسی حد تک ان کے زخموں کو مندمل کیا جا سکتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہولناک تباہی کے بعد غزہ کے 36 میں سے اب صرف 17 اسپتال ہی باقی رہ گئے ہیں اور وہ بھی جزوی طور پر آپریشنل سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ ان اسپتالوں میں جنگ متاثرین کی ضرورت کے آلات اور اشیا کا صرف 13 فی صد دستیاب ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط کی گئی جنگ میں اب تک شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 40 ہزار سے متجاوز ہو چکی ہے جن میں خواتین اور بچوں کی تعداد نصف سے بھی زیادہ ہے، اسی طرح زخمیوں اور لاپتا فلسطینیوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہے جب کہ غزہ میں ہونے والی تباہی کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس مئی کے وسط تک غزہ میں 39 فزیو تھراپسٹ ہلاک ہو چکے ہیں۔