سسٹم کی خواہش اور کوشش اگر عمران خان کو چند برس تک جیل میں رکھ کر منظر سے مائنس کرنے کی تھی تو سنگجانی جلسہ نے انہیں بیرون ملک بھیج کر مائنس کرنے کی کوشش کی طرح اسے بھی ناکام بنا دیا ہے۔ عمران خان کو منظر سے غائب کر کے ملک میں استحکام کا تاثر قائم کرنے اور معیشت کو عارضی سنبھالا دینے کا یہ خواب اس صورت میں بھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ عمران خان ملک سے باہر چلے جاتے تو وہ خاموش ہو کر بیٹھ نہیں جاتے روز ان کا کسی نہ کسی عالمی ٹی وی چینل پر انٹرویو چل رہا ہوتا اور اگر وہ جیل میں بھی رہیں گے تو باہر کی فضاؤں میں ان کا نام ان کے عشاق کے لبوں پر مچلتا اور صدائے احتجاج بن کر بلند ہوتا رہے گا۔ اس احتجاج کا لب ولہجہ کیا ہوگا؟ یہ سنگجانی جلسہ کے دوران تقریروں نے بتادیا ہے۔ اس ماحول اس لہجہ ودہن کے اور اس انداز کی سرگرمیوں کے ساتھ ملک میں استحکام آئے گا یہ محض خود فریبی ہی کہلا سکتا ہے۔ ملک میں استحکام لانے کا یہ طریقہ بہت پہلے ہی عمل کی بساط پر پِٹ گیا تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو اوّل تو انتخابات ملتوی کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور دوم یہ کہ انتخابات کے نتائج کے ساتھ فارم پینتالیس اور سنتالیس کی کاریگری کرنے کی کی نوبت نہ آتی۔ ملک کے درجنوں ٹی وی چینل، اخبارات، موٹیویشنل اسپیکروں کی بارات، ٹی وی اینکروں کی برسات بیانیہ سازی کی ہمہ وقت مشینیں بن کر بھی دوسال سے زیادہ عرصے سے منظر کو بدل سکے ہیں نہ رائے عامہ کے ایک فی صد حصے کو متاثر کر سکے ہیں۔ انہی لوگوں کا دعویٰ یہ ہوتا تھا کہ یہ رائے عامہ بناتے بھی ہیں اور رائے عامہ کی لہروں پر تیرتے بھی ہیں۔ میاں نوازشریف جب ووٹ کو عزت دینے کی دنیا میں بستے تھے تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا اگر چار پانچ بڑے ٹی وی چینل اور چند صحافی ان کے ہم نوا بن جائیں تو رائے عامہ تبدیل ہو سکتی ہے اور ووٹ کو عزت دو کی منزل قریب آسکتی ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے یہ چار پانچ تو کیا درجنوں چھوٹے بڑے ٹی وی چینل ان کے ساتھ ہیں مگر وہ رائے عامہ کو متاثر کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ ایسے میں عمران خان کو منظر سے مائنس کرکے استحکام کی خواہش پوری ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں رہا۔
سنگجانی جلسے میں مقررین کا پیغام اور لہجہ ایسا تھا کہ ایسے حالات پیدا ہوں گے کہ لوگ بنگلا دیش کو بھول جائیں گے۔ بنگلا دیش میں حالیہ انقلاب نے نہ صرف پندرہ سال سے اقتدار پر قابض شیخ حسینہ کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا بلکہ سسٹم کو تلپٹ کر دیا۔ کل کے ظالم آج مفرور ہوگئے اور کل کے مظلوم آج حاکم بنتے نظر آرہے ہیں۔ خالدہ ضیاء سمیت برسوں سے سڑنے والے سیکڑوں قیدیوں کے لیے جیل کے پھاٹک کھل رہے ہیں اور کچھ آزاد انسانوں کا جیل کے در دیوار بے تابی سے انتظارکر رہے ہیں۔ ان میں بیتے کل کی مطلق العنان حکمران حسینہ واجد بھی شامل ہیں۔ بنگلا دیشی طلبہ کے انقلاب کے ذریعے قید سے آزاد ہونے والوں میں سب سے نمایاں نام خالدہ ضیاء کا ہے۔ خالدہ ضیاء کو طاقت کے ذریعے انتخابی اکھاڑے سے نکال باہر کیا گیا تھا۔ انہوں نے احتجاج کرنے کی کوشش کی تو شیخ حسینہ حکومت نے خالدہ ضیاء کو جیل میں ڈال دیا۔ وہ اپنے تئیں انہیں جیل میں ڈال کر بھول ہی چکی تھیں۔ بھارت ان کے ساتھ تھا ملک کی فوج اور عدلیہ ان کے ہاتھ میں تھی اور عوامی لیگ کا اچھا خاصا کیڈر ان کے گرد تھا۔ ایسے میں وہ کسی بھی مخالفانہ آواز کو پرکاہ برابر اہمیت دینے کو تیار نہیں تھیں۔ اس یک جماعتی آمریت کے نیچے بارود کا ایک ڈھیر تھا، جب بھی بنگلادیشی عوام کو حسینہ حکومت کے عتاب کا نشانہ بن کر پھانسی پانے والے جماعت اسلامی کے کسی راہنما کی نماز جنازہ پڑھنے کا موقع ملتا تو ایک ہجوم بیکراں عوامی جذبات کے بارود کی عکاسی کرتا۔ پھر اچانک بارود کے اس ڈھیر میں طلبہ احتجاج کی چنگاری بھڑک اْٹھی اور چند ہفتوں میں ہی سار ا منظر بدل گیا۔ حسینہ واجد ملک کی سرحدوں سے باہر اور ان کی سب سے معروف قیدی خالدہ ضیاء عوامی سیلاب کی لہروں پر اپنی ویل چیئر پر بیٹھی جیل سے باہر نکل رہی تھیں۔ یہ الگ بات جب خالدہ ضیاء اس قید میں گئی تھیں تو ان کے قویٰ مضبوط اور جسمانی حالت ٹھیک تھی اور وہ اپنے قدموں پر جیل میں گئی تھیں مگر جب جیل کا پھاٹک ان کے لیے کھل گیا تو وہ صحت کی اچھی حالت میں نہیں تھیں۔ عوامی احتجاج نے کل کے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔
کیا پاکستان میں عمران خان کی رہائی خالدہ ضیاء طرز کے عوامی انقلاب سے ممکن ہوگی یا یہ کام عدلیہ کے ہاتھوں انجام پائے گا؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ عوامی انقلاب کی کامیابی کا مطلب اسٹیبشلمنٹ کی گرفت کو توڑنا اور ڈھیلا ہونے پر مجبور کرنا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا کم مواقع پر ہوتا ہے۔ جب بھی کسی فوجی حکمرانی کی طوالت کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ دباؤ میں آتی ہے اور جمہوری تحریکیں اس کے واپس دھکیلے جانے کا ماحول بناتی رہی ہیں تو اسٹیبشلمنٹ نے اپنے سربراہ کی قربانی دے اس دباؤ کا رخ موڑ دیا ہے۔ ایوب خان، جنرل ضیاء، پرویز مشرف تک یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ اس سے ناپسندیدہ کردار منظر سے ہٹ جاتا ہے اور پریشر ککر سے اچھی خاصی بھاپ نکل جاتی ہے اور یوں اگلے مناظر تراشنے اور تخلیق کرنے میں اسٹیبلشمنٹ سویلین حکومت کے ساتھ پھر سے شریک ِ کار اور اس کی شریک ِ محفل ہو جاتی ہے۔ بقول شاعر
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
عمران خان کے کیس میں اسٹیبلشمنٹ طاقت کے سوا جو بھی تدبیر اپناتی ہے کارگر نہیں ہو رہی اور یوں عمران خان کے خلاف طاقت آخری تدبیر ہو کر رہ گئی ہے۔ اسٹیبشلمنٹ طاقت کے واحد آپشن کا استعمال کرتے کرتے حالات کی بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔ اس پر مستزاد پنجاب کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا اور بیرون ملک بسنے والوں میں ان کی غیر معمولی مقبولیت ہے۔ اس مقبولیت کو مینج کرنے کے لیے پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی اور خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی نظریاتی جیسے تجربات کاغذ کی کشتیاں بن کر انتخابات سے پہلے ہی عوامی جذبات اور حالات کے پانیوں میں تحلیل ہو کر رہ گئے۔ ماضی میں ایسا نہیں ہوا۔ جب ایک بار ریت کے کسی گھروندے کو تاج محل قرار دیا جاتا تھا تو پھر کچھ وقت کے لیے ہی سہی لوگ اسے تاج محل کہتے لکھتے اور سمجھتے تھے۔ شاید زمانہ بدل گیا ہے ایک نئی نسل میدان میں ہے جو ابلاغ کے جدید ذرائع پر دسترس اور اطلاعات تک آزاد رسائی کی قدرت رکھتی ہے۔ کچھ تو نیا اور بدلا ہوا ہے جو پرانے آزمودہ اور تیر بہدف کہلائے جانے والے نسخے کارگر ثابت نہیں ہورہے۔ ایسے میں پاکستان میں انقلابی خْو بْو کے ساتھ لوگوں کے بے لوث اْٹھ کھڑا نہ ہونے کی روایت نہ ہونے کے باوجودکچھ غیر معمولی ہو سکتا ہے۔ عمران خان اگر اس کوشش سے آزاد نہیں بھی ہوتے مگر سسٹم کے دن سکون سے گزرنے کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان کے سرزمین بنگلادیش جیسے حالات کے لیے بنگلادیش سے اس لیے زیادہ سازگار ہے یہاں کی معیشت زمین پر ملبے کا ایک ڈھیر ہے اور عوام اس ملبے تلے کراہ رہے ہیں۔ انہیں ریسکیو کرنے کی بھی سسٹم میں صلاحیت باقی نہیں رہی ریلیف کی فراہمی تو دوسرا مرحلہ ہے۔