توسیع تو کسی کو نہیں ملنی چاہیے

284

پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر ملازمت میں توسیع کا رویہ ہمیشہ مسائل میں اضافے کا سبب بنتا ہے، آج کل بھی جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدگی انہیں توسیع دینے والے بھی بھگت رہے ہیں۔ اس روایت کو اس طرف سے ختم ہونا چاہیے جس کو توسیع دی جاتی ہے، اگر آرمی چیف اپنی فوج میں اتنی پیشہ ورانہ صلاحیت پیدا نہ کرسکے کہ اس کی جگہ لینے کے لیے کوئی اہل نہ ہو تو یہ ایک طرف بہت سارے جرنیلوں پر عدم اعتماد ہوگا اور دوسری طرف فوج میں خرابیوں کا سبب بھی بنے گا، اسی طرح عدلیہ بھی ہے ان اداروں میں توسیع ملازمت کی روایت ہونی ہی نہیں چاہیے۔ اسی مناسبت سے پہلا اچھا فیصلہ سامنے آیا ہے، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مدت ملازمت میں توسیع لینے سے معذرت کرلی ہے عدالت عظمیٰ میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کے بعد چیف جسٹس سے صحافی نے سوال کیا کہ رانا ثنا اللہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ اگر تمام جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا دی جائے تو آپ بھی ایکسٹینشن لینے پر متفق ہیں؟ اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ رانا ثنا اللہ صاحب کو میرے سامنے لے آئیں، ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، جسٹس منصور علی شاہ صاحب اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان موجود تھے، اس میٹنگ میں رانا ثنا اللہ موجود نہیں تھے، بتایا گیا تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کر رہے ہیں، میں نے کہا کہ باقیوں کی کر دیں میں صرف اپنے لیے قبول نہیں کروں گا، چیف جسٹس کا فیصلہ مستحسن ہے، اللہ انہیں اس پر قائم رکھے، انہوں نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کو تو منع کردیا لیکن باقی کو توسیع دینے کی اجازت کیوں دی، یہ راستہ کھلنا ہی نہیں چاہیے، چور دروازہ ہوگا تو چوریاں بھی ہوں گی، انہوں نے چھے ججوں کے خط پر بنچ نہ بننے کی وضاحت بھی کی لیکن وہ ناکافی لگتی ہے کہ جج عدالتی امور میں مداخلت کی شکایت کررہے ہیں اور ایک جج کی بیماری کی وجہ سے بنچ نہ بنے، انہوں نے کہا کہ کرنے کے لیے بہت کچھ ہے، ان کی یہ بات درست ہے کہ کرنے کے لیے بہت کچھ ہے، سو وہ مقدمات میں تاخیر کا سلسلہ بھی بند کروائیں بیس بیس سال تک مقدمات چلنا عام ہوگیا ہے عدالت میں جانے کا سوچ کر حق پر ہونے کے باوجود سائل نقصان میں عدالت کے باہر سمجھوتا کرلیتا ہے، عدالتی نظام سے لوگ اتنا خوفزدہ کیوں ہیں، ایک عافیہ کا کیس دیکھ لیں مسنگ پرسنز کیس دیکھ لیں، تاریخ پر تاریخ، تاخیر پر تاخیر ہورہی ہے۔ جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ بھی کہا کہ تبصرے حقیقت کی بنیاد پر کریں مفروضوں کی بنیاد پر نہیں، یہ صحافیوں کی بھی ذمے داری ہے کہ آپ سچ بولیں۔ لیکن چیف صاحب خود بھی جانتے ہیں کہ سچ بولنے اور لکھنے کے بعد صحافی کو تحفظ نہیں ملتا، اب تو سیدھا قتل کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں آزادی اظہار رائے پر ہم نے کوئی قدغن نہیں لگائی لیکن انہوں نے حکومت کو روکا بھی تو نہیں، انہوں نے کہا کہ یہ ماننا پڑے گا عدالت عظمیٰ میں شفافیت آئی ہے۔ صحافیوں کو ذرائع سے خبریں بتانے کی ضرورت نہیں، خط لکھ کر معلومات لے لیں، اور خط لکھنے پر معلومات کون دیتا ہے دھمکیاں ہی ملتی ہیں معلومات تک رسائی آئینی حق ہے لیکن یہ رسائی صحافیوں کو بھی حاصل نہیں چیف صاحب اس کا بھی کوئی علاج کریں۔ بہرحال ان کا یہ کہنا درست ہے کہ مفروضوں پر نہ جائیں، یہ بتایا وہ بتایا وہ اکثر غلط ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اب صحافت اسی کا نام بن گیا ہے۔ یہ بھی چیف صاحب کو پتا ہے کہ یہ بتاتا کون ہے؟ ججوں کی سیکورٹی کے بارے میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ بات کہتے ہوئے شرمندگی بھی ہوتی ہے لیکن بتانا ضروری ہے کہ چیف جسٹس کے لیے 3000 سی سی کی مرسڈیذ بینز کی ضرورت نہیں، میرے حساب سے، لاہور رجسٹری میں موجود بلٹ پروف لینڈ کروزر کو بھی لوٹا دیا گیا اور حکومت سے درخواست کی کہ مناسب ہوگا کہ انہیں بیچ کر عوام کے لیے بسیں خریدی جائیں، ہمیں ٹویوٹا اور سوزوکی چلانے میں کوئی مسئلہ نہیں، یہ بھی کروڑوں کی گاڑیاں ہوتی ہیں یہ پیسے عوام کی امانت ہیں۔ تھوڑا اور آگے بڑھ کر وہ حکومت سے درخواست کرنے کے بجائے عدالت کے ذریعہ ہی یہ گاڑیاں فروخت کرادیتے۔ تاکہ عوام کی امانت عوام تک پہنچ جاتی۔ اب وہ توسیع ملازمت کو آرمی چیف سمیت سب کے لیے ممنوع قرار دے دیں تو اچھا کام ہوگا۔