پشاور: خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کئی گھنٹے تک “گمشدگی” کے بعد پشاور پہنچ گئے ہیں۔ ان کی عدم دستیابی کا معاملہ پی ٹی آئی قیادت کے خلاف اسلام آباد جلسے کے حوالے سے ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد سامنے آیا تھا۔
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی شاہد خٹک نے تصدیق کی کہ گنڈاپور اسلام آباد میں پارٹی پاور شو کے بعد مختلف ملاقاتوں میں مصروف تھے، جبکہ موبائل فون مصروف رہنے کی وجہ سے ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔
یہ معاملہ اس وقت نمایاں ہوا جب پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ کی ممکنہ گرفتاری پر خدشات ظاہر کیے، کیونکہ آٹھ گھنٹوں تک ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو پایا۔
ایک روز قبل وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے دعویٰ کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے گنڈاپور کو ممکنہ طور پر حراست میں لے لیا ہے کیونکہ وہ شام 6 بجے سے لاپتہ ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے پی ٹی آئی قیادت کے خلاف امن عامہ بل 2024 کی خلاف ورزی پر شروع کیے گئے کریک ڈاؤن میں پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان، قانون ساز شیر افضل مروت سمیت دیگر رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔
پولیس نے نئے قانون کے تحت پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں جن میں 28 مقامی رہنما بھی شامل ہیں۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مشتعل کارکنوں نے پولیس ٹیموں پر پتھراؤ اور ڈنڈوں سے حملے کیے۔
نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے تصدیق کی کہ رات گئے وزیراعلیٰ سے رابطہ ہوا لیکن تفصیلی بات چیت نہ ہو سکی۔ انہوں نے کریک ڈاؤن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ریلی 8 ستمبر کو تھی، لیکن قیادت کو 7 ستمبر سے گرفتار کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب اور وفاقی حکومت نے ریلی ناکام بنانے کے لیے آپریشن 24 گھنٹے پہلے شروع کیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی کی جمہوری جدوجہد کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو آئینی حقوق کے استعمال کی اجازت دینی چاہیے ورنہ خرابی کی ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔
اسلام آباد جلسے میں وزیراعلیٰ کے متنازع بیانات پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے سیف نے کہا کہ گنڈاپور کو ایسی تقریر نہیں کرنی چاہیے تھی، اور چیئرمین بیرسٹر گوہر پہلے ہی معذرت کر چکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ لوگ تجربے سے سیکھتے ہیں، اور جذباتی تقاریر اسی وقت ہوتی ہیں جب جمہوری حقوق سلب کیے جائیں۔