لاش فروشی

309

خبر ہے کہ: کراچی کی ایک اہم شاہراہ پر دن دہاڑے اپنی گاڑی کے نیچے دو غریبوں کو کچل دینے والی بااثر امیر زادی کو بڑے دل والے وارثوں نے معاف کر دیا ہے۔ معاہدے کے مطابق مقتولہ آمنہ کے اہل خانہ کو ساڑھے 5 کروڑ روپے سے زائد رقم دیت کے طور پر ادا کی گئی ہے۔ یہ رقم پے آرڈر کے ذریعے ادا کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق نتاشا دانش کے وکیل اور عدالت میں موجود دیگر فریقین نے ابھی تک دیت کی رقم کی تصدیق نہیں کی کہ کتنی رقم ادا کی گئی ہے۔ معاہدے میں یہ بھی شامل ہے کہ جاں بحق آمنہ کے کسی قریبی رشتے دار کو کمپنی میں ملازمت دی جائے گی اور حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کو بھی الگ سے رقم ادا کی گئی ہے۔ یہ بھی اطمینان بخش بات ہے کہ یہ معاہدہ ’’قانونی ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے‘‘ کیا گیا۔ اس سے قبل عمران عارف اور آمنہ عارف کے اہل خانہ نے عدالت میں حلف نامے جمع کرائے، جن میں انہوں نے واضح کیا کہ وہ نتاشا کو معاف کر چکے ہیں اور ان کی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں۔ حلف نامے میں کہا گیا کہ حادثہ جان بوجھ کر نہیں کیا گیا تھا اور یہ معافی بغیر کسی دباؤ کے دی گئی ہے۔

مقتولہ آمنہ کے وارثوں نے قاتل نتاشا کو معاف کردیا۔ بہت اچھا کیا۔ غریب کے پاس مترفین کے لیے بہترین تحفہ۔ ویسے اگر مقتولین کے وارث معاف نہ کرتے تو کیا کرتے۔ ساٹھ ستر سال تک عدالتوں کے چکر لگاتے رہتے۔ وکیلوں کی بھاری فیسیں دیتے۔ پھر بھی یہ ضمانت نہیں تھی کہ فیصلہ ہوجاتا۔ اس معافی سے تھوڑا سا مال خرچ کر کے قاتل کو کچھ دن اور جینے کا وقت مل گیا اور وارث بہت سارے خرچوں سے، بہت ساری پریشانیوں سے، بہت ساری ذہنی اذیتوں سے بچ گئے۔ بااثر قاتلہ کو معاف کرکے وارثوں نے عقل مندی سے کام لیا۔ یہ معافی جبر لالچ خوف کے تحت ہوئی یااللہ کی رضا کے لیے یہ تو وارث ہی جانتے ہیں۔ کچھ بھی ہے مجرمہ ہنسی خوشی فتح کا نشان بناتی ہوئی عدالت سے باہرآئے گی۔ مجرمہ کے وارث ہنستے مسکراتے بھنگڑے ڈالتے خوشی خوشی اسے اپنے گھر لے آئیں گے۔ قصہ ختم۔

یہ ہمارا ملک ہے، ہمارا معاشرہ ہے، ہمارا عدالتی نظام ہے۔ اس کے عدالتی نظام میں مترفین کے لیے بہت ساری سہولتیں ہیں۔ اس ملک میں کون کیسے جیتا ہے اس کی مرضی۔ ہونا یہی تھا یعنی وارثوں کو بااثر دولت مند مجرمہ کو معاف کرنا ہی تھا۔ یہ معافی بھی ویسی ہی ہے جیسے اس سے پہلے شاہ رخ جتوئی کی طرز کی روز مرہ معافیاں ہوتی رہتی ہیں۔ بااثر مترفین اسلام کے دیت کے اس سنہری اصول سے ہمیشہ ہی فائدہ لیتے ہیں۔ اس کیس میں بھی امیر زادی دولت کا سہارا لینے میں کامیاب رہی۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر غریب مقتول کے غریب وارث ہی کیوں ہمیشہ امیر قاتلوں کو معاف کرتے ہیں؟ سارا اجر اور نیکیاں غریب ہی کیوں کماتے ہیں۔ اللہ کے دیے ہوئے قانون میں معافی کی گنجائش تو ہے لیکن یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ حیات قصاص میں

ہے۔ معاف کرنا نیکی ہے تو کیا امیروں کو نیکی کی ضرورت نہیں؟ اس ایک معمول کی معافی میں بہت سارے پیغامات ہیں۔

اس میں بااثر مالدار قاتلوں کے لیے حوصلہ افزا پیغام ہے کہ پیو پلاؤ اور بلا لائسنس گاڑیاں چلاؤ۔ سرعام اپنی گاڑیوں تلے لوگوں کو کچلتے رہو۔ تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا۔ تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ تمہارے پاس بہت مال ہے۔ تم لاشوں کی قیمت ادا کرنے کی طاقت رکھتے ہو۔ لاشیں خریدو مال خرچ کرو اور عیش کرو۔ قانون کے سینے پر مونگ دلو۔ قانون اور قانون کے رکھوالے تمہارے سہولت کار اور محافظ ہیں۔

اس معافی میں غریب کے لیے پیغام ہے کہ مقدمہ بازی میں وقت اور پیسہ ضائع کرنا عقل مندی نہیں۔ اگر کسی امیر زادے یا امیر زادی نے تمہارے کسی عزیز کی جان لے لی ہے تو دیت لے کر معاملہ ختم کرو۔ جھگڑے اور مقدمہ بازی نہ تمہارے بس میں ہے نہ ہی دانش مندی۔ امیر زادی پر بلا لائسنس گاڑی چلانے اور شاید پینے کا کیس بہت معمولی نوعیت کا ہے۔ ریاست امیرزادوں کے لیے ماں جیسی ہوتی ہے اس لیے ان مقدمات سے ہوسکتا ہے نتاشا بری ہوچکی ہو۔