اختر مینگل کا استعفا بلوچستان کے سیاسی مستقبل کے لیے ایک نازک لمحہ ہے، اس کے اثرات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ وفاقی حکومت اور بلوچستان کی سیاسی قیادت اس صورتحال کو کس طرح سنبھالتی ہے، اگر حکومت سنجیدگی سے بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ صوبے کے لیے ایک مثبت موڑ ہو سکتا ہے، لیکن اگر ماضی کی طرح مسائل کو نظرانداز کیا جاتا رہا تو یہ مستقبل میں مزید سیاسی اور سماجی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے، بلوچستان کی عوام جو پہلے ہی اپنی مشکلات اور محرومیوں سے دوچار ہیں، اختر مینگل کے استعفے کو ایک احتجاج کے طور پر دیکھ رہی ہے، اس سے عوامی سطح پر بے چینی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور وفاقی حکومت کے خلاف مزید احتجاج اور مظاہرے ہو سکتے ہیں، کیونکہ اختر مینگل نے اپنی پریس کانفرنس میں واضع طور پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اْن کا نہ صرف ریاست سے بلکہ صدر اور وزیر اعظم سے بھی اعتماد اْٹھ گیا ہے، بلکہ بلوچستان میں ہونے والے قتل بھی اس نظام کا حصہ ہیں اور قاتل عدالتیں بھی ہیں جو آج تک انصاف فراہم نہ کر سکیں اور سب سے بڑے قاتل سیاستدان ہیں جنہوں نے سیاست کو کاروبار بنا رکھا ہے۔ اس تمام صورتحال میں کیا اختر مینگل جیسے رہنما کا قومی اسمبلی سے استعفا قیادت کی خلا کو پْر کر سکتا ہے، اس خلا کو پْر کرنے کے لیے صوبے کے دیگر سیاسی رہنماؤں کو آگے آنا ہوگا اور مضبوط قیادت کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کیونکہ اختر مینگل ہمیشہ سے مرکزی حکومت کے ساتھ مذکرات کے حامی رہے ہیں، ان کے استعفے کے بعد حکومت اور بلوچستان کے درمیان مذکرات کا عمل متاثر ہو سکتا ہے، اس سے صوبے کے حقوق اور مسائل کے حل میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف بیرونی طاقتوں کا بلوچستان میں مداخلت کا خطرہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور اختر مینگل جیسے اہم سیاسی رہنما کے استعفے کے بعد یہ خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے، بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت اور قدرتی وسائل نے اسے عالمی اور علاقائی طاقتوں کے لیے ہمیشہ سے ایک اہم مرکز رہا ہے، جن کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ نہ صرف بلوچستان کے وسائل پر قبضہ کریں، بلکہ مقامی علٰیحدگی پسند تحریکوں کو بھی تقویت دیں، تاکہ صوبہ بلوچستان کو غیر مستحکم کریں اور اپنے مفادات کو حاصل کریں، بلوچستان کی سیاسی قیادت کو یہ سوچنا ہو گا اگر صوبے میں سیاسی استحکام نہیں رہا تو یہ بیرونی طاقتیں مقامی لوگوں کے مسائل کو بنیاد بنا کر مداخلت کر سکتی ہیں، اور یہ مداخلت انسانی حقوق کے نام پر بھی کی جا سکتی ہے یا پھر داخلی مسائل کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہیں، جس کا اصل مقصد اپنے مفادات کو حاصل کرنا ہے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ بلوچ عوام کو اپنے قدرتی وسائل اور ان سے حاصل ہونے والی آمدنی میں حق فراہم نہ کرنے کی شکایات جو ابھی بھی موجود ہیں۔ ان مسائل کو حل کیے بغیر بلوچستان کا سیاسی مستقبل روشن نہیں ہو سکتا، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں بعض عناصر علٰیحدگی کی تحریک چلاتے ہیں جو وفاق اور صوبے کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچاتے ہیں ان تحریکوں کو مذکرات اور مفاہمت سے حل کرنا ضروری ہے۔
بلوچستان کیونکہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، خاص طور پر گیس، کوئلہ، اور معدنیات جیسے سونے اور تانبے کی وسیع ذخائر ہیں، تاہم، بلوچستان کی آبادی کو ان وسائل سے ہونے والے فوائد میں کبھی بھی مناسب حصہ نہیں ملا یہی ان کی محرومیوں کا سبب ہے، بلوچستان کے سیاسی مستقبل کا ایک اہم عنصر مقامی خودمختاری کا مسئلہ ہے، بلوچ قوم پرست جماعتیں صوبے کے وسائل اور فیصلوں پر زیادہ مقامی کنٹرول کا مطالبہ کرتی ہیں، جو ان کا حق بھی ہے، اگر اس مطالبے کو تسلیم کیا جائے تو بلوچستان میں سیاسی کشیدگی کو کم کیا جا سکتا ہے، بلوچستان میں اقتصادی ترقی کے بغیر سیاسی استحکام مشکل ہوگا، وفاقی حکومت اور مقامی قیادت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ صوبے کے وسائل کا مناسب حصہ مقامی آبادی کو ملے، سی پیک اور گوادار بندرگاہ کے منصوبوں میں بلوچستان کی مقامی آبادی کی شمولیت کو یقینی بنانا ہوگا، خاص کر بلوچستان کے عوام کی جان و مال کا تحافظ جو کئی سال سے عدم توجہ شکار ہے، دہشت گردی روز کا معمول ہے جب کے حکومت کی جانب سے بلوچستان میں موجود سیکورٹی اداروں پر حکومت اربوں روپے خرچ کر رہی ہے مگر عوام کو سیکورٹی ادارے تحفظ دینے میں ناکام نظر آتے ہیں بلکہ خود بھی عدم تحفظ کا شکار لگتے ہیں تو وہ عوام کو کیا تحفظ فراہم کریں گے، اگر سیکورٹی کی صورتحال بہتر نہیں ہوتی اور مسلح تحریکیں جاری رہتی ہیں تو بلوچستان کا سیاسی مستقبل غیر مستحکم رہے گا، اس کے علاوہ، عسکری تحریکوں اور ریاست کے درمیان مذاکرات یا کوئی سیاسی حل نہ ہونے کی صورت میں صوبے کے مسائل مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں، اگر وفاقی حکومت اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کے درمیان کوئی سیاسی مفاہمت ہو جاتی ہے، جس میں صوبے کو زیادہ خودمختاری اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی یقین دہانی ہو، تو بلوچستان کا سیاسی مستقبل زیادہ مستحکم ہو سکتا ہے اور یہی بلوچستان کے مسئلے کا حل ہے۔