دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خواندگی کا عالمی دن منایا گیا ،جس طرح انصاف کا دن منایا جاتا ہے ،آزادی صحافت کا دن منایا جاتا ہے۔ خواتین کا دن منایا جاتا ہے اور بہت سے ایام منائے جاتے ہیں ، محنت،جمہوریت ،آزادی اظہار کے دن منائے جاتے ہیں اور یہ چیزیں اس دن بھی لوگوں کو میسر نہیں ہوتیں جس روز یہ دن منایا جاتا ہے۔اسی طرح خواندگی کا دن بھی منایا گیا ، ان دنوں کی مناسبت سے پیغامات جاری کیے جاتے ہیں تقریبات ہوتی ہیں اور سیمینار ہوتے ہیں اسی مناسبت سے پاکستان میں خواندگی کے عالمی دن کے موقع پر وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پیغام میں کہا کہ خواندگی ایک بنیادی انسانی اور ا?ئینی حق ہے۔ تعلیم اور خواندگی ہمارے ملک کے مستقبل کی ضمانت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواندگی محض پڑھنے لکھنے کی صلاحیت نہیں ہے، یہ بااختیار بنانے، اقتصادی مواقع اور معاشرے میں فعال شرکت کا ایک گیٹ وے ہے۔اس پیغام کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے کہ یہ نہ صرف محض پیغام ہے بلکہ پرلے درجے کی دو عملی کا کھلا مظاہرہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے بنیادی تعلیم ہی کا راستہ روک رکھا ہے خواندگی کی شرح اسی سے بڑھتی ہے ،انہوں نے خواندگی اور تعلیم کو بنیادی آئینی حق تو تسلیم کیا ہے لیکن جس ملک میں تعلیم کا یہ حال ہو کہ کروڑوں بچے اسکول جانے کی عمر کے باوجود اسکول نہیں جارہے ، اگر خواہش رکھیں تو بھی اس خواہش پر عمل کرنے سے قاصر ہیں ،اور اس کی وجہ صرف وہ بچے اور ان کے والدین نہیں ہیں بلکہ حکمرانوں نے تعلیم کو کسی ترجیح میں نہیں رکھا ہے ، جو اسکول دستیاب ہیں ان کو تباہ کردیا گیا ہے پرائیویٹ تعلیمی ادارے اب تعلیمی ادارے نہیں رہے پرائیویٹ ادارے خال خال ہی تعلیم دے رہے ہیں اب تو تعلیم کاروبار ہے اور ملٹی نیشنل اور ایجنڈے والی تنظیموں کا اس شعبے پر مکمل کنٹرول ہے، دن تو ہر چیز کا منایا جاتا ہے لیکن میسر نہیں، انصاف بھی خریدنا پڑتا ہے اور عزت بھی پیسے سے ملتی ہے،اور تعلیم تو ایسا نفع بخش کاروبار ہے کہ ہر کاروبار کرنے والا اپنا کام چھوڑ کر تعلیمی اداروں میں سرمایہ کاری کررہا ہے،یہی تعلیمی مافیا میڈیا میں بھی موجود ہے۔تعلیم کے پیسوں سے یہ لوگ سیاست بھی کرتے ہیں تعلیم جیسا بنیادی حق قوم کو میسر نہیں ، جس ملک میں کروڑوں بچے اسکول جانے سے محروم ہوں وہاں کے حکمرانوں کو ایسے دن منانا زیب نہیں دیتا۔اس حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آج، ہم تعلیم کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں، ہم ایک زیادہ باخبر اور پائیدار قوم کے لیے کوشاں ہیں۔ تعلیم ہمارے معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس مقصد کے لیے، ہم نے ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے طلبہ کے اندراج کی مہم شروع کی ہے، اسکولوں میں بچوں کو دوپہر کا کھانا شروع کیا ہے۔ وزیر اعظم تعلیم کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی بات تو کررہے ہیں لیکن اس سے قبل وہ سرکار کے زیر کنٹرول اسکولوں کی حالت تو ٹھیک کریں، اسکولوں کے بچوں کو کھانا کھلانے پر زور دینے کے بجائے اسکولوں میں اساتذہ کا تقرر کریں۔ تعلیمی ایمرجنسی کا تو مطلب یہ ہے کہ ملک کا ایک ایک بچہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو، لیکن ایسا تو نہیں ہورہا ،وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ اسکول چھوڑنے کی شرح کو کم کرنے اور ہر بچے کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کی ترغیب دینے کے لیے وظائف اور دیگر مراعات متعارف کرائی ہیں۔ ایسی کون سی مراعات اور ترغیبات ہیں کہ جن کی وجہ سے بچے اسکول جانے لگیں گے ، ترغیبات سے پہلے حکومت تعلیم کا بجٹ کم سے کم دوگنا کرے اور ہر سال بیس فیصد اضافے کا اصولی فیصلہ کرے ، جس کی پابندی ہر حکومت پر فرض ہو۔ خلاف ورزی کرنے والا سیاست کے لیے نااہل قرار پائے۔ اور سب سے بڑی ترغیب تو یہ ہے کہ حکمران طبقہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھائے پھر وہاں کا معیار تعلیم خود بخود درست ہوگا ،اگر حکمرانوں کے بچے سرکار کا دیا ہوا کھانا کھا لیں تو سب کے بچوں کو وہی کھانا دیا جائے،وزیر اعظم نے بڑی بڑی باتیں کی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس تیزی سے ابھرتی ہوئی دنیا میں، ٹیکنالوجی کے مطابق خواندگی اور مہارتوں کی ترقی ناگزیر ہے۔ حکومت ایک جامع منصوبہ پر عمل پیرا ہے جس سے ٹیکنالوجی ہمارے تعلیمی نظام میں ضم ہو جائے گی۔ لیکن گزشتہ دو ہفتے سے انٹرنیٹ کی رفتار پر حکومت قابو نہیں پاسکی ہے وہ تعلیم میں ٹیکنالوجی کا انقلاب کیسے لائے گی۔لیکن ساتھ ہی تعلیم کو معاش سے جوڑدیا، کہتے ہیں کہ اس بات کا مقصد اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہمارے نوجوان ڈیجیٹل معیشت میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے ضروری مہارتوں سے لیس ہوں۔ سارا زور معیشت پر ہے اخلاقی اور دینی تعلیم کا کہیں ذکر نہیں جو اچھا انسان تیار کرتی ہے اور اچھے انسان اچھا معاشرہ بناتے ہیں۔وزیر اعظم سول سوسائٹی کو حکومت کا برابر کا شریک قرار دیتے ہیں اور سول سوسائٹی وہ ہے جس کا قبلہ ہی مغرب ہے۔ایسے شراکت دار کو تو دور ہی رکھنا چاہیے اصل سول سوسائٹی تو پاکستانی سول سوسائٹی ہے جو اسلامی اقدار کے مطابق کام کرتی ہے ، اگر حکومت سنجیدہ ہے تو تعلیم کا بجٹ بڑھائے ، تعلیمی اداروں میں کسی قسم کی بھی مداخلت نہ کی جائے چھوٹے بڑے کسی منصب پر تقرر میں مداخلت نہ کرے ، تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین بحال کرے لسانی اور علاقائی تنظیموں کی سرپرستی بند کی جائے ، اور سب سے بڑھ کر حکمرانوں کے بچے تمام تعلیم ملک میں حاصل کریں ، صرف اس تعلیم کیلیے باہر جائیں جو ملک میں موجود نہ ہو۔ساتھ ساتھ ریسرچ یعنی تحقیق پر خصوصی توجہ دے۔پاکستان ان شا اللہ ہر میدان میں آگے ہوگا۔