بجلی کی قیمتیں اور حکومتی اگر مگر

302

وفاقی حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان بجلی کے نرخوں اور ٹیکسوں میں کمی کے معاملے پر ہونے والے معاہدے کی مدت ختم ہونے میں اب تقریبا دو ہفتے رہ گئے ہیں اور حکومت کی جانب سے اجلاس ، مشاورتی کمیٹیوں اور تشویش سے آگے بات نہیں بڑھ رہی ہے اب وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ حکومت آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کیلئے مذاکرات کر رہی ہے تاکہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کیا جاسکے، پاکستان میں بجلی کی قیمتوں کا موجودہ نظام ناقابل برداشت ہے،پاور پروڈیوسرز اور حکومت کے درمیان بات چیت جاری ہے فریقین یہ بات سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال برقرار نہیں رہ سکتی،تمام اسٹیک ہولڈرز کو خاص حد تک کاروباری سمجھوتہ کیے بغیر جلد رعایت فراہم کرنا ہوگی، بجلی کے موجودہ نرخ سے ملکی ترقی کو نقصان پہنچ رہا ہے، پاور کمپنیوں کو معاہدے کا کوئی نیا مسودہ یا خاص شرائط نہیں بھیجی گئیں، معاہدے میں تبدیلیاں باہمی رضامندی سے ہونگی۔ انکی یہ گفتگو بتارہی ہے کہ حکومتی حلقوں میں بھی جماعت اسلامی کے عوامی مطالبات کے حوالے سے شعور موجود ہے اور وہ اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ بجلی بلوں کا یہ نظام زیادہ نہیں چل سکتا اس کے نقصانات ہی ہیں فائدہ کوئی نہیں اوراگر ہے تو حکومت کو عارضی فائدہ ہے لیکن قومی نقصان زیادہ ہے۔ حکومتی حلقوں میں یہ سوچ تو آگئی ہے کہ پاور پلانٹ کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک خاص حد تک کاروباری سمجھوتہ کیے بغیر رعایت فراہم کرنی ہوگی اور یہ کام جتنا جلد ممکن ہو سکے کرنا ہوگا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں جاری اقتصادی بحران نے بجلی کی کھپت کو کم کر دیا ہے جسکی وجہ سے اضافی بجلی موجود ہونے کے باوجود بھی ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے ، شنید ہے کہ حکومتی جانب سے آئی پی پیز معاہدوں میں تبدیلی کی تجاویز میں ضمانتی منافع میں کمی، ڈالر کی شرح کی حد بندی اور غیر استعمال شدہ بجلی کی ادائیگی نہ کرنا شامل ہے۔ تاہم پاور کمپنیوں کو معاہدے کا کوئی نیا مسودہ یا خاص شرائط نہیں بھیجی گئی اور نہ ہی حکومت کوئی نئے کمزور معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے انہیں مجبور کریگی۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ عوام کو زیادہ بل دینے پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے،اور یہ کہ پاور کمپنیوں کے بارے جو نرمی برتی جارہی ہے شائستگی کی بات ہورہی ہے نیا معاہدہ نہ کرنے اور جبر نہ کرنے کی بات کی گئی ہے اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ گڑ بڑ حکومت ہی کی جانب سے ہے ، آیا پاور کمپنیاں اپنا منافع کم کرنے پر آسانی سے راضی ہو جائیں گی یا حکومت کوٹکاساجواب مل جائے گا۔ اویس لغاری کہتے ہیں کہ ہم آئی پی پیز کیساتھ شائستہ اور پیشہ ورانہ انداز میں بیٹھ کر بات کرینگے۔یہ اچھی بات ہے لیکن عوام بھی اسی سلوک کے مستحق ہیں۔ اور شائستگی اور پیشہ ورانہ انداز کا تقاضا ہے کہ حکومت جماعت اسلامی کی ٹیم کے ساتھ ملک کے مفاد میں ہونے والے معاہدے کا پاس رکھے اور علی الاعلان اعتراف کرے کہ جماعت اسلامی کے مطالبات جائز بھی ہیں اور قابل عمل بھی،اور ہماری کوششوں کا مقصد بھی عوام کو ریلیف ہی دینا ہے۔ لیکن صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ عوام پریشان ہیں ، نظام چل نہیں سکتا جلد کچھ کرنا ہوگا وغیرہ یہ سب کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی ، یہ بڑا سنگین مسئلہ ہے حکومت نے معاملہ ٹالنے یا کسی قسم کی دونمبری کی کوشش کی تو لوگوں کے جذبات کنٹرول میں نہیں رہیں گے، پھر جو ہو گاوہ حکومت کو بھگتنا پڑے گا۔آخر جماعت اسلامی نے حکومت سے کون سا غلط مطالبہ کیا ہے ، ان کا مطالبہ ہے کہ لاگت کے مطابق بجلی کی قیمت وصول کی جائے،عوام سے کپیسٹی چارجز نہ لیے جائیں، جاگیرداروں اور بڑے لوگوں پر ٹیکس لگایا جائے عوام کو بوجھ سے بچایا جائے ،تنخواہ دار پر ٹیکس نہ تھوپا جائے اس پر بوجھ کم کیا جائے، حکومتی عیاشیاں کم کی جائیں اور سارے کاموں کیلیے جماعت اسلامی نے اپنی معاونت کی بھی پیشکش کی ہے ، تو پھر حکومتی کمیٹی لاپتا کیوں ہے ، وہ سامنے آئے اور مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالے۔ لیکن حکومتی رویے سے ایسا محسوس نہیں ہورہا کہ وہ عوام کو مسائل سے نکالنے کی خواہش نہیںرکھتی ہے۔