NLFسندھ کے صدر شکیل احمد شیخ، سینئر نائب صدر مبین راجپوت، حیدرآباد زون کے صدر عبد القیوم بھٹی، جنرل سیکرٹری اعجاز حسین، انفارمیشن سیکرٹری محمد احسن شیخ اور دیگر نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ریلوے ورکشاپ حیدرآباد میں تقریباً900 محنت کش ملازمین کام کرتے تھے اور اب ان کی تعداد تقریباً 152 افراد اس وقت ورکشاپ میں 900 سے زائد افراد کا کام کرنے پر مجبور ہیں اور ماہ دسمبر2024میں 10سے12ملازمین مزید ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ ڈیوٹی اوقات میں 2 گاڑیاں 8گھنٹے کی نارمل ڈیوٹی پر صرف152 افراد دن رات مشقت کر کے دو گاڑیوں کی ریئپرئنگ کر پا رہے تھے۔
لیکن اب ورکس منیجر حیدرآباد کے شاہی فرمان کے مطابق تین گاڑیوں کی مرمت کی جائے جبکہ ملازمین کو میٹریل بھی پورا نہیں ملتا، مثلاً ٹول ٹپس اور سرکولر اور پیتل کی راڈیں جس سے ٹول وغیرہ ویلڈنگ ہوتے ہیں جبکہ یہ چیزیں نہ ہونے کی وجہ سے پرائیوٹ کام کروانے کا ورکس منیجر کی جانب سے حکم جاری ہوتا ہے جبکہ ایک ٹول پر کم از کم لاگت 400روپے آتی ہے وہ بھی ملازمین آپس میں چندا کر کے بنوانے پر مجبور ہیں اوراس کے باوجود ورکس منیجر حیدرآباد فرماتے ہیں تین برابر چھ گاڑیاں تیار کرنی ہیں آج سے پہلے ایک شفٹ میں 15 سے 16 آدمی ہوتے تھے۔
آج پوزیشن یہ ہے کہ ایک شفٹ میں تقریباً 6 آدمی ہیں اور کام 15 آدمیوں کا لیا جا رہا ہے جبکہ موجودہ برسات میں ریلوے ورکشاپ چونکہ نشیب میں واقع ہے جس کی وجہ سے معمولی سی بھی برسات میں ورکشاپ پورا پانی میں ڈوب جاتا ہے نکاسی کا کوئی بندوست ورکس منیجر کی جانب سے نہیں کیا جاتا جبکہ ورکس منیجر کی جانب سے حکم جاری کیا گیا ہے کہ پانی نکاسی کا پمپ بھی ملازمین اپنی جیب سے چندا جمع کرکے مرمت کروائیں تاکہ پانی نکل سکے جبکہ الیکٹرک اور مکینکل مشینری کی مرمت کے لیے کوئی اسٹاف بھی نہیں ہے وہ بھی باہر سے مکینک بلائے جاتے ہیں اور جو بھی باہر سے کام کروایا جاتا ہے وہ ورکشاپ کا مزدور چندہ کر کے اپنی تنخواہوں سے اس کی ادائیگی کرتے ہیں جس کی وجہ سے ورکشاپ کا مزدور بہت پریشان ہے اور سہولیات کچھ بھی نہیں ہیں ورکشاپ میں نہ تو مزدورں کے لیے پینے کا پانی ہے اور گرمی کے موسم میں اس سے پہلے باقاعدہ پانی اور برف بھی ہوتا تھا جبکہ ورکس منیجر حیدرآباد نے برف بھی بند کروادی۔ 2012میں چائنہ سے جو مشین آئی تھی وہ ورکشاپ میں ویسے کے ویسے ہی بند پڑی ہے کچھ عرصہ تو اس کو چلایا گیا تھا اس کے بعد آج تک بند ہے کیونکہ اس کا مکینک ان کے پاس نہیں ہے جبکہ اس کوایک مرتبہ بنوایا گیا تھا جس کی مد میں ادارہ ریلوے نے تقریباً 9 لاکھ روپے کی ادائیگی کی تھی لیکن یہ مشین پھر بھی نہیں چلی اور نو لاکھ روپے ضائع کیے گئے اور ورکشاپ کے سوئی گیس کا بل تقریباً15لاکھ روپے کا چڑھ چکا جبکہ با خبر زرائع کے مطابق سات سے نو لاکھ روپے منظور بھی ہو چکے ہیں لیکن ورکشاپ کو نہیں دیے گئے ہیں اور اگر کوئی مزدور ان کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو ان کو کہا جاتا ہے کہ تمہارا ٹرانسفر کردیا جائے گا، ان تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ریلوے ورکشاپ کے مزدوروں میں بڑی بے چینی پائی جاتی ہے۔ لہٰذا ہم ریلوے انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مزدوروں کی ان جائز تکلیف کو دور کیا جائے۔ یہ ہی مزدور ریلوے کو رواں دواں رکھنے کے لیے دن رات کام کرتے ہیں۔