بلوچستان چاہتا کیا ہے؟

342

بقا بلوچ کے ایک شعر سے آغاز کرتے ہیں:

ہر کوچے میں ارمانوں کا خون ہوا
شہر کے جتنے رستے ہیں سب خونیں ہیں

پچھلے 77 برس ہی سے نہیں اس سے بھی پہلے اہل بلوچستان اپنے آپ کو ستم گری کی ایسی ہی حالت سے دوچار پاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بلوچستان میں جو کچھ ہوا، پاکستان کے قیام کے بعد یہ علٰیحدگی کی پانچویں لہر ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے حالیہ پریس بریفنگ میں اس لہر کو بیرونی سوچ اور فنڈنگ کا نتیجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا ’’25 اور 26 اگست کی رات دہشت گردوں نے بلوچستان میں کارروائیاں کیں۔ یہ کارروائیاں اندرون وبیرون ملک دہشت گردوں کے ایما پر کی گئیں، ان کا مقصد معصوم اور بے گناہ افراد کو نشانہ بنا کر بلوچستان کے پرامن ماحول اور ترقی کو متاثر کرنا ہے۔ فورسز کی جوابی کارروائی میں 21 دہشت گرد مارے گئے اور 14 جوان شہید ہوئے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بلوچستان کے عوام میں احساس محرومی اور ریاستی جبر کا تاثر بھی پایا جاتا ہے، جس کو بیرونی ایما پر مخصوص عناصر منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہ اس کو اس لیے اسپلائٹ کرتے ہیں تاکہ بلوچستان میں ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کا جاری عمل خوف و ہراس کے ذریعے متاثر کیا جا سکے۔ جب دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں ہوں گی، جب ترقی نہیں ہوگی تو اس سے احساس محرومی اور ریاستی در اندازی کا بیانیہ مزید بڑھے گا، دہشت گردوں کے سرپرست ریاست کو مزید مورد الزام ٹھیرائیں گے اور گھناؤنے عمل کو جاری رکھ سکیں گے۔ 25، 26 اگست کی رات کو ہونے والے واقعات اسی بیرونی فنڈنگ پر چلنے والے کھیل کا حصہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کرنے والوں، کرانے والوں کا انسانیت اور بلوچ اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دہشت گردوں کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ شہریوں کے جان و مان اور ترقی کے دشمنوں سے ریاست آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی‘‘۔

بیان سے واضح ہے کہ بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے فوج اسے انسرجنسی، شورش اور بغاوت سمجھتی ہے جسے بیرونی ممالک سے مدد حاصل ہے۔ افغانستان، ایران اور سب سے بڑھ کر ہندوستان جس میں پیش پیش ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان جس طرح مجاہدین کی مدد کرتا رہا ہے اور وہاں تحریک آزادی کو ہوا دیتا رہا ہے، اپنے اندرونی اور بیرونی دوستوں خاص طور پر امریکا کی مدد سے اس پر قابو پا کر اب ہندوستان بلوچستان کی شورش کو بڑھاوا دے کر پاکستان سے اس کا بدلہ لے رہا ہے۔ ہندوستان نہ ہوتا تو کوئی اور ملک بلوچستان کے شورش پسندوں کی مدد کو آجاتا جیسے ایران اور افغانستان۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کون بلوچوں کے ہاتھ میں بندوق دے رہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ لوگ بندوق اٹھا کیوں رہے ہیں؟

ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان سے عیاں ہے کہ فوج سخت فوجی ردعمل سے بلوچستان میں بدامنی اور غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کا جواب دینا چاہتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلے کو بہت سادہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش ہے۔ یہ نقطہ نظر بدامنی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے میں ناکامی کا اعتراف ہے۔ جب ہزاروں غیر مسلح شہری جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوں، گوادر جیسے اہم مقام پر احتجاج کررہے ہوں تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہاں حقیقی اور غیر حل شدہ شکایات ہیں جنہیں دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کوئٹہ، گوادر یہاں تک کہ اسلام آباد میں بلوچ خواتین اور بچوں سمیت اتنی بڑی تعداد میں لوگ احتجاج کیوں کررہے ہیں؟ کیا یہ اس بات کی علامت نہیں ہے کہ بلوچستان کی مسلم آبادی کے حقوق اور ضروریات پورا کرنے میں یہ نظام ناکام ہے۔ اگر حکومت ان شکایات کو پوری توجہ سے موثر طریقے سے حل کرتی اور عوام کے حقوق کی بازیابی کو ممکن بناتی ہے تو کیا اس کے بعد بھی بیر ونی قوتوں کو صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوئی صورت باقی رہ جائے گی؟

جسم اپنے فانی ہیں، جان اپنی فانی ہے، فانی ہے یہ دنیا بھی
پھر بھی فانی دنیا میں جاوداں تو میں بھی ہوں جاوداں تو تم بھی ہو
(بقا بلوچ)

بلوچستان کے لوگوں کی شکایات بہت بڑی ہیں۔ جنہیں برطانوی اقتدار اور پاکستانی حکمرانوں کے دور میں بھی حل کرنے کی مستحکم کوششیں نہیں کی گئیں۔ نوآبادیاتی دور میں بلوچستان کو باضابطہ طور پر کبھی بھی صوبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ ایک الگ خصوصی انتظام کے ذریعے اس پر حکومت کی گئی۔ انگریزوں کو اپنے قبضے کے خلاف مسلسل مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مسائل حل کرنے کے بجائے انہوں نے خطے کے استیصال پر زور دیا جس سے غربت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ نوآبادیاتی نظام کو ڈیزائن ہی اس طریقے سے کیا گیا تھا کہ رعایا کی خدمت کے بجائے انہیں محکوم بنایا جائے، ان کے حقوق سے انکار کیا جائے اور فوجی طاقت کے ذریعے کنٹرول کیا جائے۔ پاکستان بننے کے بعد یہاں کی سیاسی اور عسکری قیادت نے زیادہ تر استعماری وراثت کی پیروی کی اور بلوچستان پر حکومت کرنے کے لیے برطانوی ماڈل کی تقلید کی ہے۔ استیصالی اور جابرانہ پالیسیوں کے اس تسلسل نے خطے میں بدامنی اور بے اطمینانی کو کبھی ختم نہیں ہونے دیا۔

یہ استعماری سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کی وجہ سے پاکستان مسلم دنیا کی دوسری ریاستوں کی طرح ایک ناکام ریاست ہے۔ حکمران طبقہ اپنی انتہائوں پر جاکر ملک کا استیصال کررہا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف بلاچستان بلکہ پورے ملک میں بے چینی اور مایوسی پائی جاتی ہے۔ بلوچ، پشتون، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر کی مظلوم اقوام شدید غم وغصے کی حالت میں ہیں۔ نہ صرف ان علاقوں میں بلکہ پورے ملک میں نفرتیں جنم لے رہی ہیں۔ اس جمہوری نظام میں زیادہ آبادی والے صوبے زیادہ توجہ اور وسائل حاصل کر لیتے ہیں اور بلوچستان جیسے چھوٹے صوبے اور کم انتخابی اثرات رکھنے والے علاقے نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ جمہوریت سے منسلک استیصال ان کا مقدربن جاتا ہے۔

بلوچستان، پختون خوا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر ہی نہیں پورے پاکستان کے مظلوم عوام کو مل کر ایک مشترکہ جدو جہد کرنا ہوگی لیکن کس مقصد کے لیے؟ استعماری نظام کے خاتمے اور اسلامی طرز حکومت اور خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے۔ روٹی، کپڑا، مکان، غربت، بے روزگاری، بدامنی اور استیصال کی مختلف صورتوں کے لیے الگ الگ نہیں بلکہ اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے۔ یہ اسلامی شریعت ہی ہے جو ہر طرح کے استیصال کے خاتمے کو ممکن بناتی ہے۔ صوبوں میں اقلیت اور اکثریت،کم آبادی یا زیادہ آبادی سے قطع نظر اسلام ریاست کے تمام لوگوں کی خوشحالی اور ترقی کو یقینی بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم مکمل دلجمعی کے ساتھ خلافت راشدہ کے وفادار رہے۔

موجودہ دور میں کون سا ملک ہے جہاں علٰیحدگی کی تحریکیں نہیں چل رہیں۔ بھارت میں ایک دو نہیں متعدد علٰیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ کے لوگ الگ ہونا چاہتے ہیں۔ بلوچستان میں علٰیحدگی پسند بہت کم تعداد میں ہیں۔ زیادہ تر لوگ پاکستان کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے حقوق کی بازیابی اور استیصال کے خلاف برسر احتجاج ہیں جو اسلام چاہتے ہیں۔ شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ آپ اسلام کا نظام نافذ کردیجیے بلوچستان ہی نہیں پورا ملک امن کا گہوارہ بن جائے گا۔