قول و فعل کے تضاد کا مسئلہ ایک بڑا اور اہم ترین مسئلہ ہے۔ یعنی انسان جو کہتا ہے وہ کرتا نہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں؟
بعض صاحبان علم نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ اساسی طور پر یہ مسئلہ قلت علم سے متعلق ہے۔ یعنی انسان جو کہتا ہے اس کا کافی علم نہیں رکھتا، چنانچہ اس کے قول و فعل میں تضاد کی صورت اُبھرتی رہتی ہے۔ اس کے لیے ان کا مشورہ یہ ہے کہ اہل ایمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے علم میں اضافہ کرتے رہیں تا کہ قول و فعل کا تضاد دور ہو جائے اور ان میں کامل ہم آہنگی کی صورت پیدا ہو جائے۔ مگر دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ کافی علم رکھنے کے باوجود بھی اپنے کہے پر عمل نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کا مسئلہ یقین کی کمی ہے اور یقین کی کمی کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً ایک وجہ اخلاص کی قلت ہے۔ دوسری وجہ توجہ کے ارتکاز کا نہ ہوتا ہے۔ تیسری وجہ انسان کے مفادات ہیں۔ یعنی انسان جو کہتا ہے اسے اپنا مفاد نہیں سمجھتا اور جو کرتا ہے اسے اپنے مفاد خیال کرتا ہے۔ مثلاً اسے معلوم ہے کہ سچ بولنا اچھی بات ہے لیکن سچ بولنے میں اسے اپنے کئی دنیاوی مفادات خطرے میں نظر آتے ہیں چنانچہ وہ سچ کو ایک طرف رکھ کر جھوٹ کی راہ اختیار کرتا ہے کیونکہ اس طرح اس کے مفادات کا تحفظ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح انسان کہتا ہے کہ دوسروں کی مدد کرنا اچھی بات ہے لیکن دوسروں کی مدد میں وسائل، وقت یا توانائی صرف ہوتی ہے، لہٰذا انسان سوچتا ہے کہ یہ اچھائی اس کے بجائے کوئی اور کرلے تو زیادہ اچھا ہے۔ قول و فعل کے تضاد سے متعلق کہی گئی یہ باتیں درست ہیں لیکن اس سلسلے میں کچھ اور پہلو بھی اہم ہیں۔ اگر چہ یہ بالکل سامنے کی باتیں ہیں مگر ان پر توجہ نہیں دی جاتی۔
تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ انسانوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو قول کو فعل کے برابر سمجھ لیتی ہے۔ اس کی ایک صورت یہ نکلتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بات کے بارے میں تواتر سے یہ کہتا ر ہے کہ یہ اچھی بات ہے تو بات کے دہرائے جانے کے عمل سے رفتہ رفتہ اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے وہ اس بات پر عمل بھی کرتا ہے۔ چونکہ اس میں ایک حد تک اس بات کی قبولیت موجود ہوتی ہے اس لیے اسے ذہنی سطح پر اپنے قول و فعل میں کوئی فاصلہ نظر نہیں آتا اور اسے لگتا ہے کہ وہ جو کچھ کہتا ہے اس پر عمل نہایت آسان ہے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ اس کا قول فعل میں نہیں ڈھلتا بلکہ ہوتا یہ ہے کہ قول فعل کا نعم البدل بن کر رہ جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس مسئلے کا شکار عام لوگوں سے زیادہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں عرف عام میں دانشور اور علما و فضلا کہا جاتا ہے۔ اس بات سے مزید دو مسائل سامنے آتے ہیں۔
ایک یہ کہ قول کے دہرائے جانے کے عمل سے ایک تصور ذات یا Self image پیدا ہو جاتا ہے۔ یعنی میں مسلسل اچھی بات کہہ رہا ہوں اس لیے میں اچھا آدمی ہوں اور چونکہ میں ’’اچھا آدمی‘‘ ہوں اس لیے میں جو کہتا ہوں اس پر عمل بھی کرتا ہوں۔ لیکن جیسا کہ ظاہر ہے تصور ذات اس حد تک غالب آجاتا ہے کہ انسان کے لیے قول ہی پوری حقیقت بن جاتا ہے۔ اس بات سے دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ دہرائے جانے سے قول خود کار یا میکنیکل ہو جاتا ہے اور ’’خود کاریت‘‘ قول کی روح کو کمزور یا فنا کر دیتی ہے اور قول حافظے میں اس طرح محصور ہو جاتا ہے کہ نہ انسان اسے بھولتا ہے اور نہ اسے یاد رکھنے کی طرح یاد رکھ پاتا ہے۔ یاد رکھنے کی طرح یاد رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ یاد وہی ہے جو اثر پزیر ہو اور جو یاد اثر پزیر نہیں وہ ایک مردہ یاد ہے۔
ایسا نہ ہوتا تو یہ شکایت عام نہیں ہو سکتی تھی کہ مذہب کے دائرے میں بہت کچھ ہونے کے باوجود ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ بلا شبہ نمازیوں اور حاجیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ مذہب اور اخلاق پر تقاریر کا دائرہ بھی وسیع ہوا ہے لیکن مذہب انسان میں جو سچائی اور جو علم پیدا کرتا ہے وہ کہیں نظر نہیں آرہا۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ مذہب نے ہمیں نہیں بدلا بلکہ ہم نے مذہب کو اپنے امیج کا حصہ بنالیا ہے۔ چنانچہ ہماری سماجیات، ہماری نفسیات اور ہماری معاشیات نے مذہب کی اصطلاحیں تو اختیار کر لی ہیں لیکن مذہبی اصطلاحوں کا زور اقوال میں تو خوب نظر آرہا ہے مگر عمل میں سکہ ہماری سماجیات، نفسیات اور معاشیات ہی کا چل رہا ہے۔ لیکن اس عمل کی خود کاریت اکثر لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں ہونے دے رہی کہ ہو کیا رہا ہے۔ اگر لوگ دس منٹ کے لیے بھی اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو ہماری زندگی میں بہت بڑا انقلاب بر پا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
اچھائی کے راستے سے بہتر راستہ بھلا کون سا ہو سکتا ہے لیکن اچھا بننے کے لیے انسان کو سب سے پہلے اپنی برائی سے نپٹنا پڑتا ہے۔ اچھائی کے راستے کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے، لیکن انسان اس مشکل کو مشکل نہیں رہنے دیتا وہ اسے آسان بنا لیتا ہے اور اس کی سب سے نمایاں صورت یہ ہے کہ برائی کو اپنے اندر دبا دو۔ اگر کوئی پست خواہش ہے تو اس کا گلا گھونٹ دو۔ لیکن خواہشیں گلا گھونٹنے سے نہیں مرتیں۔ پستی سے عہدہ برآ ہونے کا سب سے بہتر اور مؤثر طریقہ یہ ہے کہ اس کا فہم حاصل کر لو، اسے Realize کر لو اور اس سے بلند ہو جاؤ۔ اس کے سوا پستی سے نپٹنے کا ہر طریقہ سرسری اور مصنوعی ہے۔
قول و فعل کے تضاد کے مسئلے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ انسان کہتا کچھ اور ہے اور کرتا کچھ اور ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو کہتا ہے وہ اس کے لیے محض ایک ذہنی حقیقت یا تصور ہے لیکن وہ جو کچھ کرتا ہے اس کے ذائقے سے وہ آگاہ ہے۔ اس طرح تصور اور تجربے کے درمیان مقابلہ ہو جاتا ہے۔ اس مقابلے سے ہوتا یہ ہے کہ ذائقہ مؤثر رہتا ہے اور قول غیر مؤثر۔ اس طرح قول اور فعل میں ایک مستقل فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر انسان اپنے کہے پر عمل کرے تو اس سے فوری طور پر ایک ذائقہ میسر نہیں آتا۔ لیکن انسان بے صبرا ہے، وہ انتظار نہیں کرتا، اگر وہ انتظار کرے اور اچھائی اور سچائی کے ذائقے کو پیدا ہونے دے تو برائی کا ذائقہ چار دن میں ہوا ہو جائے گا۔ حق آتا ہے تو باطل مٹ جاتا ہے اس لیے کہ باطل کو مٹ جاتا ہے۔ لیکن حق انسان کے اندر ایک دن میں نہیں پھیل جاتا۔