اختر مینگل پارلیمانی سیاست چھوڑ چلے

322

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل قومی اسمبلی کی نشست سے یہ کہہ کر مستعفی ہوگئے کہ اس سے اچھا ہے میں پکوڑوں کی دکان کھول لوں۔ انہوں نے گلہ کیا کہ پارلیمنٹ میں انہیں بولنے نہیں دیا جاتا تو ایسی اسمبلی میں رہنا بے کار ہے۔ اختر مینگل کے مطابق اب پاکستان کے سب سے بڑے قانون ساز ایوان کی حیثیت پکوڑوں کی دکان جیسی بھی نہیں رہی۔ ظاہر ہے اس کی وجہ ان کے نذدیک یہ ہوگی کہ پارلیمان میں فیصلہ سازی کی قوت باقی نہیں رہی بلکہ تمام فیصلے پارلیمنٹ سے باہر باہر ہوتے ہیں اور ان فیصلوں پر مہر ثبت کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کا نام آتے ہی تین سرداروں کی ٹرائیکا کا نام ذہن میں آتا ہے یہ ہیں بگٹی، مری اور مینگل۔ تینوں سرداروں کا ریاست کے ساتھ آنکھ مچولی کا تعلق رہا۔ بالخصوص بگٹی قبیلے کے سربراہ نواب اکبر خان بگٹی اور مینگل قبیلے کے سربراہ عطاء مینگل ریاست کے ساتھ سرد وگرم رویوں کے ساتھ ریاست کے ساتھ ایک تعلق قائم رکھے رہے۔ نواب خیر بخش مری البتہ ریاست سے مستقل ناراض رہے لیکن ان کے بیٹوں نے ریاست کے ساتھ اول الذکر دو بلوچ راہنماؤں جیسی پالیسی اپنائے رکھی۔

یہ تینوں سردار اب دنیا میں نہیں رہے مگر ان کی لگیسی ان کی اولادوں کی صورت میں موجود ہے۔ ان میں کوئی عسکریت کا ہمدرد اور سرپرست ہے تو کوئی اب بھی سیاسی دھارے میں موجود ہے۔ اختر مینگل کا شمار انہی راہنماؤں میں ہوتا ہے جو آخری حد تک پارلیمانی سیاست اور ریاست کے ساتھ جڑے رہے۔ ایک مقام ایسا آیا جب انہوں نے اس طرز سیاست کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کیا۔ ایک آشوب زدہ علاقے میں جہاں آبادی کا بڑا حصہ دوسری انتہا پر کھڑا ہے ایک معتدل سیاست دان کا پارلیمان سے عالم ِ مایوسی میں رخصت ہوجانا آنے والے دنوں کے لیے اچھا شگون نہیں۔بقول شاعر

کسی شجر سے پرندوں کا کوچ کر جانا
یہ ایک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا

سیاست دان اور عسکریت پسند میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ سیاست دان دلیل اور مکالمے پر یقین رکھتا ہے اس کی زبان اور زبان دانی اس کا آخری ہتھیار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عسکریت پسند طاقت اور بندوق ہی کو دلیل مان کر چلتا ہے۔ اور اس کے خیال میں طاقت کو سرنگوں کا کرنے کا طریقہ مزید طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔ عسکریت پسند کا ٹھکانہ اس کا ہائیڈ آئوٹ ہوتا ہے جو کسی غار کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے کسی تہہ خانے کی صورت میں بھی جبکہ سیاست دان کا ٹھکانہ اور آخری منزل پارلیمان ہوتا ہے۔ اس کی ہر سرگرمی قول وقرار ریکارڈ پر ہوتا ہے۔ سیاست دان بالائے زمین ہوتا ہے جبکہ عسکریت پسند زیر زمین۔ بلوچستان میں ایک دریا کے دو دھاروں کی طرح یہ دونوں سوچیں ایک سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ بالخصوص بلوچ سیاست کا بڑا حصہ زیر زمین جا چکا ہے اور حالات وواقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس حصے کو بلوچ عوام کی بڑے پیمانے پر تائید اور حمایت حاصل ہے۔ ریاست جس قدر طاقت کا استعمال کرتی ہے عسکریت پسندوں کی عوامی اسپیس اتنی ہی وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں اختر مینگل جیسے سیاست دانوں کا اپنے حلقہ اثر کے رجحانات کے برعکس پارلیمانی سیاست کے دھارے میں رہنا ایک وفاقیت کی ایک بڑی کامیابی تھی۔ ان کی باتیں اور خطاب پارلیمان کے اندر بلوچستان کے عوامی اور عمومی رجحانات کا بیرومیٹر تھے۔ عوام اور ریاست دونوں کو حالات اور تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے میں مدد مل رہی تھی۔ پاکستانی معاشرہ اب متبادل بیانیوں اور سوچوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس کے باوجود اختر مینگل جیسے سیاست دانوں کا پارلیمانی دھارے سے بوجھل قدموں اور تھکے ہوئے لہجے کے ساتھ نکل جانا کسی طور اچھا نہیں۔

بلوچستان ایک بڑی سرجری کا تقاضا کر رہا ہے۔ بات اب مصنوعی اقدامات سے آگے نکل گئی ہے۔ بلوچستان کے عوام نے اتنے زخم کھائے ہیں کہ اب مزید زخموں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی۔ اس صوبے کے لوگوں کے ساتھ وسائل کی ساجھے داری میں بڑی وارداتیں ہوئی ہیں۔ وہ اپنے قدرتی اور معدنی وسائل کو اپنی آنکھوں سے بلوچستان کی حدود سے باہر جاتا دیکھتے ہیں تو ان کے غصے اور فرسٹریشن کی وجہ کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ ماہر معاشیات قیصر بنگالی حکومت سے خفا ہو کر گھر بیٹھ گئے ہیں اور اب انہوں نے انکشافات کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ انہی میں ایک انکشاف یہ ہے کہ گوادر پورٹ کے ریونیو میں پاکستان کا حصہ صرف نو فی صد ہے۔ گویا کہ اکیانوے فی صد منافع چینی کمپنیوں کا ہے۔ نو فی صد میں سے بلوچستان کے حصے میں کیا آئے گا یہ بات مزید وضاحت کی محتاج نہیں۔ نو فی صد میں بلوچستان کے عوام کے حصے میں حسب روایت محرومی ہی آئے گی اور وہ گوادر پورٹ کی روشنیوں اور وہاں جاری تجارتی سرگرمیوں دیوہیکل بحری جہازوں کی آمدو رفت کے نظاروں ہی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ایسے عوام دشمن معاہدات کرنے والے کون ہیں؟ ظاہر ہے کہ وہ اپنا حصہ وصول کرکے اپنی راہ لے چکے اب پاکستان جانے اور اس کی آنے والی نسلیں۔ حالات کے اس آئینے میں بلوچستان اور پاکستان کے مستقبل کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسے میں اختر مینگل جیسی پرامن اور معتدل آوازیں بھی خاموش ہوجائیں تو پھر بولنے کے لیے باقی کون رہے گا؟۔