کراچی( اسٹاف رپورٹر)جوائنٹ ایکشن کمیٹی آف پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشنز سندھ کے عہیدیداروں نے علیم قریشی کی قیادت میں کراچی پریس کلب میں اہم پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں حکومت کواپنے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے اپنے مطالبات پیش کردیئے۔
کراچی پریس کلب میں علیم قریشی کنوینر جوائنٹ ایکشن کمیٹی آف پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشنز سندھ اپنے ساتھیوں ،بشیر احمد چنہ چیئرمین APIسندھ، دانش الزماں چیئرمین PSMA، ابو شوریم ارشد محمود چیئرمین STAP، انجینئرعبد الرحمن چیئرمین FKPSC ،سردار سلیم چیئرمین APSDO، فیض احمد فیض فارمر ڈائریکٹرNAAFA سندھ ، ڈاکٹر ارشد علی خان چیئرمین )KPSA،شاکر شکورانچارج تنظیم اساتذہ کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نجی تعلیمی اداروں نے تقریباتین دہائیاں قبل ریاست کی اہم ترین اور بنیادی ذمہ داری تعلیم کو اپنی مدد آپ کے تحت بغیر کسی سرکاری سرپرستی کے اس وقت Rescue کیاجب باوجود کوششوں کے نہ صرف یہ شعبہ مسلسل زوال پذیر تھابلکہ ہماری شرح خواندگی بھی پریشان کن حد تک کم تھی۔ ایسے عالم میں ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ان اداروں کی بھر پور حوصلہ افزائی کی جاتی اور ان کے لیئے آسانیاں پیدا کی جاتیں اور انہیں مراعات دی جاتیں کیونکہ ایک طرف یہ ادرے حقیقی معنوں میں عوام الناس کو گھر کی دہلیز پرتعلیم فراہم کر رہے تھے اور لاکھوں کی تعداد میں جو بچے دور دراز بنیادی سہولتوں سے عاری اسکولوں میں نہیں پہنچ پاتے تھے ان کا رشتہ کتاب اور قلم سے جوڑا دوسری جانب ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار نوجوان بچے اور بچیوں کو نہ صرف روزگار فراہم کیا بلکہ انکو اعلیٰ تعلیم کے حصول اور بہترین استاد بنانے میں بھی معاونت فراہم کی ۔ مگر اس کے بر عکس ان اداروں کے لیئے آئے روز مشکلات میں اضافہ کرنے اور انکا گلا گھونٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی گئی۔ نتیجتاً آج وہ تعلیمی ادارے جو COVID-19 جیسی وبا سے بغیر کسی امداد نہ صرف خود باہر آئے بلکہ نجی اسکولز میں زیر تعلیم لاکھوں بچوں کو بلا مبالغہ کروڑوں روپے واجبات کی مد میں رعایت فراہم کیآج مکمل تباہی کے دھانے پر پہنچ چکے ہیںاور دلبرداشتہ ہو کراپنے اداروں کو بند کرنے پر تیار بیٹھے ہیں۔ہم ان مسائل کی سنگینی اور اپنی تشویش کامتعلقہ فورمز پر اظہار کرتے رہے ہیں مگر اسکول ایجوکیشن کا 60% سے زائد بوجھ اٹھانے والے نجی شعبہء تعلیم کے لیئے شاید کسی کے پاس کچھ بھی نہیں۔اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور نجی اسکولز کے بے حد دبائو پر ہم نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وزیر تعلیم سندھ محترم سید سردار علی شاہ صاحب کی خدمت میں اپنا 10 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کر دیا ہے جس میں ہم نے اپنے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ:
مطالبہ نمبر1- ۔دس فیصدفری شپ کے قانون پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے زمینی حقائق کے مطابق اور قابل عمل بنایا جائے۔
مطالبہ نمبر 2- تیزی سے بڑھتی مہنگائی(تقریباً 38% سالانہ)، بجلی کے بھاری بھرکم بلزاور دیگر اخراجات میں بے پناہ اضافے کے باوجود فیسوں میں صرف 5%سالانہ اضافہ خلاف توازن ہے۔معیاری تعلیم اور مناسب سہولیات کی فراہمی تب ہی ممکن ہے جب نجی اسکولز کو مہنگائی یا کم از کم سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافے کے تناسب سے فیس میں سالانہ اضافے کی اجازت دی جائے۔
مطالبہ نمبر 3۔ محکمہ تعلیم اسکولز کی معاونت اور رہنمائی کے بجائے انہیں ہراساں کرنے اور انکے لیئے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔رجسٹریشن سے متعلق تمام ناجائز رکاوٹوںاور اور تاخیر کو فی الفور ختم کیا جائے اور فوری طور پر لاکھوں طلبا کے بہترمفاد میں تمام چھوٹے بڑے اسکولز کی رجسٹریشن اور تجدید کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے ۔
مطالبہ نمبر 4۔ اسکول ایجوکیشن کا 60%سے زائدبوجھ اٹھانے والے نجی اسکولز کے لیئے تعلیمی بجٹ میں رقم مختص کی جائے جو ان اسکولوں میں زیر تعلیم مستحق اور محنتی بچوں کی فیس ادائیگی اور نجی اسکولز میں پڑھانے والے اساتذہ کی تربیت اور فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے۔۔
مطالبہ نمبر 5- پانچ ہزار روپے سے کم فیس والے اسکولز میں زیر تعلیم بچوں کو سرکاری اسکولز کے بچوں کی طرح مفت کتب فراہم کی جائیں اور تعلیمی بورڈز کو ان بچوں سے انرولمنٹ اور امتحانی فیس کی وصولی سے روکا جائے۔
مطالبہ نمبر 6- ۔ماہ مئی میں امتحانات اور اور اگست سے نئے تعلیمی سال کا آغاز نہ صرف تعلیمی تباہی کا سبب بن رہا ہے بلکہ یہ ہمارے موسمی حالات سے بھی متصادم ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ حسب سابق فوری طور پر مارچ میں امتحانات اور یکم اپریل سے نئے تعلیمی سال کے آغاز کا اعلان کیا جائے اور اسے بتدریج پیچھے لاتے ہوئے دسمبر میں امتحانات اور یکم جنوری سے نئے تعلیمی سال کا آغاز کیا جائے تاکہ گرمی کی شدت تعلیمی کلینڈر پر اثر انداز نہ ہو۔
مطالبہ نمبر 7۔ پرائیویٹ اسکولز کو بدنام اور انکی ساکھ خراب کرنے کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کی جائے نہ کہ محکمہء تعلیم خود پرائیویٹ اسکولز کے خلاف پروپیکنڈے میں شامل ہو جائے۔کسی بھی قسم کی شکایت کی صورت میں ڈائریکٹوریٹ کو پابند کیا جائے کہ وہ کسی حتمی نتیجے؍فیصلے تک معاملے کو سوشل میڈیا و پریس کی زینت نہ بننے دے کیونکہ اس طرح کا عمل ادارے، وہاں زیر تعلیم طلبا اور اساتذہ کی ہتک اور حوصلہ شکنی کا باعث بنتا ہے۔
مطالبہ نمبر8 ۔ نجی تعلیمی اداروں کے مسائل کے حل، ان کی بہترکارکردگی اور معیاری تعلیم کے فروغ اور جامع پالیسی مرتب کرنے کے لیئے الگ ڈائریکٹوریٹ کی طرح نجی تعلیمی اداروں کے لیئے علیحدہ اسٹیئرنگ کمیٹی؍سب کمیٹی بنائی جائے جو ان اداروں سے متعلق فیصلے کرے۔
مطالبہ نمبر 9 ۔ اہم قومی مواقع کے علاوہ اسکولز میں تعطیلات کا اختیار مقامی ڈپٹی کمشنرز کو دیا جائے جو مقامی موسم و حالات کے مطابق تعلیمی ادارے بند رکھنے یا کھولنے کا اعلان کریں تاکہ تعلیمی عمل جاری رہ سکے اور بچوں کا کم سے کم تعلیمی حرج ہو۔
مطالبہ نمبر10 ۔ نجی اسکولز اور انکے اساتذہ کا تحفظ اور احترام یقینی بنایا جائے۔انہیں ہراساں کرنے، اسکول میں ہنگامہ آرائی اور بدکلامی، بغیر اطلاع؍ لیونگ سرٹیفکیٹ بچے کو اسکول سے نکالنے، اسکول واجبات وقت پر ادا نہ کرنے یا ادا کیئے بغیر اسکول چھوڑنے کو جرم قرار دیا جائے اور قانونی کاروائی کی جائے۔
مطالبہ نمبر 11- نجی تعلیمی اداروں پر کسی قسم کے ٹیکس کا براہ راست اثران اداروں میں زیر تعلیم بچوں اور انکے والدین پر پڑتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تعلیمی اداروں کو ہر قسم کے ٹیکس سے مثتسنی قرار دیا جائے۔ بالخصوصFBRکی جانب سے اسکولز میں POSکے لیے جو دبائو ڈالا جا رہا ہے اسے فی الفور روکا جائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر فوری طور پر اقدامات نہیں کیئے گئے تو نجی تعلیمی شعبہ کا وجود بھی خطرے کا شکار ہو جائے گا اور معیاری تعلیم کا حصول خواب بن کر رہ جائے گا ۔ اس وقت ہم اپنے اداروں کے بے حددبائو کا سامنا کرتے ہوئے ایک ایسا راستہ نکالنا چاہتے ہیں جس میں ہم سب کی بقا اور بہتری ہو۔ایک اندازے کے مطابق ہر بچے پر25000/= روپے خرچ ہونے کے باوجود سرکاری اسکولز، وہاں میسر بنیادی سہولیات، بچوں کی سیکیورٹی اور وہاں کا معیار تعلیم نہ ہمارا موضوع ہے نہ ہم اس پر بات کرنا چاہتے ہیں مگر اس کا حال کسی سے پوشیدہ بھی نہیں۔ ہم پیشکش کرتے ہیں کہ اس سے آدھی رقم تعلیمی کارڈ کے ذریعے نجی اسکولز کو دیں ہم اس سے کئی گنا زیادہ بہتر نتائج کی گارنٹی دینے کو تیار ہیں۔آخر میں ایک بار پھر آپ تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ہماری گذارشات پر فوری غور نہیں کیا گیا اور بات چیت کے ذریعے کوئی قابل عمل حل نہیں نکالا گیا توہم پرامن احتجاج سمیت ہرقانونی راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہونگے۔