انگریزی سامراج کا خود کاشتہ پودا؛ مرزا غلام احمد

395

برصغیر میں بظاہر تجارت کی غرض سے آنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک سازش کے تحت پورے ہندوستان پر قبضہ کر کے اپنی حیا باختہ ثقافت کو وہاں کے لوگوں پر جبراً مسلط کرنے کی کوشش کی اور مقامی لوگوں کو غلام بنا کر ان کی توہین تذلیل کی ان حالات میں شاہ عبد العزیز نے انگریزی سرکار سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کا فتویٰ جاری کیا اور اس تحریک کو منظم کرنے کے لیے سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے مسلمانوں میں بیداری کی روح پھونکنے کے لیے ملک گیر دورے کیے اور 1826 کو تحریک آزادیٔ وطن شروع کرتے ہوئے دہلی آزاد پختونستان کی طرف روانہ ہوئے تاکہ انگریز کی عملداری سے نکل کر اس کے خلاف منظم جہاد کریں اسی جدوجہد میں وہ 1831 کو بالاکوٹ کے مقام پر دریائے کنہار کے کنارے جام شہادت نوش کر گئے یہ تحریک 1857 تک بڑی شدت سے چلتی رہی اسی وجہ سے 1857 کو انگریز کیخلاف دہلی تا کلکتہ بغاوت کی تحریک آزادی چلی مگر انگریز ی سرکار نے اسے بڑی بیدردی سے کچلا ہزاروں محب وطن شہید ہویے اور ہزاروں گرفتار کر کے کالے بھیج دیے گئے اس کے باوجود برطانوی سامراج مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد کو نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ تو اس نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوانے اور علماء حق کو جہاد کے میدان سے نکال کر مناظرے کے میدان میں لا کر دفاعی پوزیشن پر کھڑا کرنے کے لیے 1868 میں برطانیہ کے چند ارکان پارلیمنٹ، سینئر صحافیوں اور چرچ آف انگلینڈ کے پادریوں پر مشتمل وفود ہندوستان بھیجے جنہوں نے تفصیلی حالات کا مطالعہ کرنے کے بعد تجویز کیا کہ مسلمانوں کی اکثریت اپنے علماء وروحانی قائدین کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے۔ اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو باسٹالک پرافٹ حواری نبی ہونے کا دعویٰ کرے تو ایسے شخص کی نبوت کو سرکاری طور پر پروان چڑھا کر برطانوی حکومت کے مفادات کے لیے بہت کام لیا جا سکتا ہے۔

ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران مرزا غلام احمد قادیانی سیالکوٹ ضلع کچہری میں معمولی نوکری کرتا تھا سیالکوٹ میں موجود برطانوی پادری مسٹر ٹیلر بٹلر نے مرزا سے رابطہ کیا اور سبز باغ دکھائے اور اس کام پر آمادہ کیا مرزا نے یہ چھوڑی اور قادیان جا کر مجدد ہونے دعویٰ کر دیا اور ساتھ جہاد کی منسوخی گورنمنٹ کی اطاعت کا اعلان کیا تمام مکاتب فکرکے جید علماء کرام نے مرزا اس اقدام کے خلاف دلائل کے ساتھ اس کی گوشمالی کی البتہ اس کیخلاف آغاز میں تحریری و تقریری محاذ اس کا مقابلہ مولانا محمد حسین بٹالوی نے کیا کیونکہ بٹالہ قادیان سے صرف 13 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور مولانا تبلیغ کے لیے اکثر وہاں جاتے رہتے تھے۔ انگریزی حکومت کی سرپرستی مالی معاونت اور سیکورٹی کی بدولت مرزا غلام احمد قادیانی نے 1882 کو جھوٹی نبوت کا دعویٰ کر دیا مولانا محمد حسین بٹالوی مناظرہ اور مرزا کی نبوت والہامات کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے قادیان پہنچے مگر مرزا نے مناظرے سے انکار کر دیا اور اپنے مخالفین کے خلاف وتمام مسلم مکاتب فکرکے خلاف ایسی فحش وبازاری زبان استعمال کی جس کو تحریر کرنا دل ودماغ پر گراں گزرتا ہے اس نے مسلمانوں کے مقدس مقامات بیت المقدس۔ مدینہ منورہ۔ مکہ معظمہ سے قادیان کو افضل قرار دیا مرزا غلام احمد قادیانی نے دھمکیوں پر مبنی ایک خود ساختہ الہامی اشتہار مولانا بٹالوی کے خلاف شائع کیا مگر وہ جھوٹ نکلا اس کے بعد تمام مسلم مکاتب فکرکے مشترکہ ومسلمہ مناظر فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری نے مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف مورچہ لگایا اور مرزا اکثر کتابوں کے جوابات لکھ کر اسے جھوٹا ثابت کر دیا۔

مرزا نے 1902 میں اعجاز احمدی نامی کتاب لکھ کر مولانا ثناء اللہ کو چیلنج دیا کہ وہ قادیان آ کر اس کے الہامات پر مناظرہ کریں اور جیتنے کی صورت میں ایک لاکھ سترہ ہزار انعام حاصل کریں مولانا کچھ عرصے بعد قادیان پہنچ گئے تو مرزا نے مناظرہ کرنے سے صاف انکار کر دیا مولانا کے مسلسل تعاقب سے تنگ آکر مرزا نے 15 اپریل 1907 کو دعوت مباہلہ پر مبنی ایک اشتہار شائع کیا جو سبز اشتہار کے نام سے مشہور ہوا اس کا عنوان تھا مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ اس میں بہت سارے گلے شکوے اور مولانا کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کے بعد لکھا۔ میں خدا سے دعا کرتا ہوں اے میرے مالک اگر دعویٰ میرے مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد وکذاب ہوں تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی کے ساتھ تیری جناب میں التجا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کردے آمین۔ شاید دعا کی قبولیت کا وقت تھا کہ اس اشتہار کی اشاعت کے صرف ایک سال ایک ماہ اور بارہ دن بعد 26 مئی 1908 کو مرزا لاہور میں مرزا انتہائی ذلت آمیز انداز میں موت کا شکار ہوا اور مولانا امرتسری 40 سال تک زندہ رہے اور قادیانیوں کے ساتھ مناظرے کرتے رہے قیام پاکستان کے بعد 1953میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کے لیے زبردست تحریک چلائی کم از کم دس ہزار شمع نبوت کے پروانے شہید ہوئے اور لاکھوں اسیر ہوئے اس کے بعد 1974 کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی، مفتی محمود سمیت ارکان اسمبلی نے ایوان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کے لیے قرار پیش کی اسمبلی کے قائد نے مرزا ناصر اپنی صفائی کا بھرپور موقع دیا اور اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے تمام ارکان اسمبلی کی نمائندگی کرتے ہوئے مرزا سے سوالات کیے قریباً دو ہفتوں کی تفصیلی بحث کے بعد اسمبلی نے اتفاق رائے سے یہ بل پاس کیا کہ جو شخص محمدؐ کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط ایمان نہیں رکھتا اور جو محمدؐ کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا جو کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے وہ قانون وآئین کی اغراض میں مسلمان نہیں۔ اس بل پر 7 ستمبر 1974 کو چار بج کر پینتیس منٹ پر قائد ایوان ذوالفقار علی بھٹو نے دستخط کیے اور اپنا نام شمع نبوت کے پروانوں کی فہرست میں نمایاں مقام پر لکھوایا اور اپنے کردار کو قیامت یادگار بنا دیا۔

کلیوں کو میں سینے کا لہو دیکر چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
تاریخ کے اوراق میں زندہ رہوں گا
اور تاریخ میرے نام کی تعظیم کرے گی