احیائے اسلام کی تحریک۔ ایک تعارف (2)

484

بتایا جاتا ہے کہ جب برصغیر میں قیام پاکستان کی تحریک چل رہی تھی تو برطانیہ نے امریکا سے رابطہ کرکے پوچھا تھا کہ برصغیر میں مسلمانوں کا الگ ملک بننے دیا جائے یا اس کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کردی جائیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان بننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ہم یہ ملک بنتے ہی اسے اپنے کنٹرول میں لے لیں گے۔ ہم اسے نہ اسلامی بننے دیں گے، نہ جمہوری رہنے دیں گے، بلکہ اس کی فوج کے ذریعے اس پر مسلط ہو کر اسے سیکولر بنائیں گے اور اس کا حلیہ بدلدیں گے۔ واضح رہے کہ برطانیہ ایک مدت تک دنیا پر حکومت کرنے کے بعد اپنے خول میں سمٹ رہا تھا اور نئی استعماری قوت امریکا اس کی جگہ لے رہا تھا۔ بیش تر مسلمان ممالک اس کے زیر نگیں تھے، پاکستان بنا تو امریکا نے اس پر بھی اپنا جال پھینک دیا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کو دورہ امریکا کی دعوت دی۔ وہ امریکا گئے تو انہوں نے وہاں پاکستان کی اسلامی شناخت اور اس کی آزادی و خودمختاری سے متعلق ایسی پُرعزم باتیں کیں کہ امریکی حکام چونک گئے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ کچھ عرصے بعد انہیں راولپنڈی کے جلسے میں قتل کردیا گیا جس شخص نے انہیں گولی ماری تھی اسے بھی موقع پر ٹھکانے لگا دیا گیا۔ جس پولیس افسر نے قاتل کو جائے واردات پر ختم کرنے کا حکم دیا تھا اس کو بعد میں پروموٹ کردیا گیا۔ اس قتل کی تحقیقات بھی نہیں ہونے دی گئیں، پون صدی گزرنے کے بعد بھی یہ قتل معما بنا ہوا ہے۔

لیاقت علی خان کا قتل نہایت گہری سازش تھی جس میں پاکستان کے بے ضمیر سیاستدان تو ملوث تھے ہی امریکا کا بھی اس سازش میں ملوث ہونا تعجب خیز نہ تھا۔ وہ ہر قیمت پر پاکستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح اپنی بیماری کے سبب داغِ مفارقت دے چکے تھے۔ قائداعظم اپنی زندگی میں بار بار اس بات کی وضاحت کرچکے تھے کہ پاکستان اپنی ہیئت میں ایک اسلامی ریاست ہوگا اور اس میں اسلام کا نظام نافذ کیا جائے گا، انہیں موت نے مہلت نہ دی کہ وہ اس خاکے میں رنگ بھرتے، البتہ نوابزادہ لیاقت علی خان اپنی بھرپور توانائی کے ساتھ بقید حیات تھے، انہوں نے اپنی عظیم الشان جاگیر پاکستان پر قربان کردی تھی اور اس کا کوئی کلیم پاکستان میں داخل نہیں کیا تھا۔ دہلی میں ان کی عالی شان کوٹھی میں آج بھی پاکستانی سفارت خانہ کام کررہا ہے۔ لیاقت علی خان کو قتل کرانے کی بنیادی وجہ یہ بنی تھی کہ انہوں نے قرار داد مقاصد دستور ساز اسمبلی میں پیش کرکے اس کی منظوری حاصل کی تھی۔ یہ وہ تاریخی قرارداد ہے جس کا مسودہ ملک کے مختلف مسالک کے 22 جید علمائے کرام نے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔ مولانا مودودی اگرچہ نفاذ اسلام کی تحریک چلانے کے جرم میں اُن دنوں جیل میں تھے لیکن قرارداد کا مسودہ انہیں جیل میں بھیجا گیا اور انہوں نے اس کی نوک پلک درست کرکے اس سے اتفاق کیا۔ اس قرار داد نے پاکستان کی منزل بھی متعین کردی تھی اور اس کا راستہ بھی طے کردیا تھا۔ وہ یہ کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا، اس میں اللہ کی حاکمیت قائم کی جائے گی اور اللہ کے دیے گئے اختیارات کے تحت قرآن و سنت کی روشنی میں ملک کے تمام امور سے متعلق قانون سازی کی جائے گی۔ یہ بات نہ انگریزوں کی پروردہ بیوروکریسی کو منظور تھی نہ ان لبرل اور سیکولر عناصر کو جو پاکستان بنتے ہی اس کے اقتدار پر قابض ہوگئے تھے۔ لیاقت علی خان بھی اگرچہ ان کے زیر اثر تھے لیکن انہوں نے قرار داد مقاصد پیش کرکے خود کو ان سے الگ کرلیا تھا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان صرف امریکی استعمار ہی کی زد میں نہ تھا سوویت یونین نے بھی اسے اپنے نشانے پر رکھا ہوا تھا۔ وہ پاکستان کو سوشلسٹ یا کمیونسٹ ملک بنانا چاہتا تھا۔ امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سردجنگ جاری تھی اور پوری دنیا ان دونوں طاقتوں کا محاذ بنی ہوئی تھی۔ نوزائیدہ مسلمان ملک پاکستان بھی اس محاذ میں شامل تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں ایک سازش کے ذریعے حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی گئی جسے سرکاری طور پر ’’راولپنڈی سازش کیس‘‘ کا نام دیا گیا، اس سازش میں چند فوجی افسر اور ممتاز شاعر فیض احمد فیض سمیت بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کئی اور اہم شہری ملوث پائے گئے، ان پر مقدمہ چلا اور انہیں سزائیں دی گئیں۔ فیض نے اس زمانے میں ایک غزل کہی جس کا یہ شعر بہت مشہور ہوا۔

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے!

حالانکہ وہ بات جسے ’’سوشلسٹ انقلاب‘‘ کہا جارہا تھا بچے بچے کو معلوم تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سازش کو امریکی انٹیلی جنس کی مدد سے ناکام بنایا گیا۔ اس طرح پاکستان میں امریکی اثر رسوخ مزید بڑھ گیا۔ امریکا اور سوویت یونین اگرچہ ایک دوسرے کے حریف تھے اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف اپنے تمام حربے آزما رہے تھے لیکن پاکستان کے معاملے میں وہ اس بات پر متفق تھے کہ اسے ایک اسلامی ریاست نہیں بننے دینا۔ دونوں ملک پاکستان کو اپنے اپنے کیمپ میں تو لانا چاہتے تھے لیکن اس بات پر کسی صورت بھی راضی نہ تھے کہ اسے اسلامی ملک بننے دیا جائے۔ انہیں خوف تھا کہ اگر پاکستان میں اسلامی نظام اور اسلامی قانون نافذ ہوگیا تو دوسرے مسلمان ملک بھی اس سے شہہ پکڑ سکتے ہیں اور اسلامی دنیا میں ان کا اثر رسوخ ختم ہوسکتا ہے۔

یہ ہے وہ سیاسی منظرنامہ جس میں احیائے اسلام کی تحریک جسے مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کا نام دیا تھا میدان میں اُتری۔ اس نے سوشلزم (کمیونزم) اور سیکولرازم (لبرلزم) اور ان نظریات کی علمبردار عالمی طاقتوں، سوویت یونین اور امریکا دونوں کو للکارا اور ببانگ دہل کہا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، اسلام کے نام پر اور کلمے کی بنیاد پر بنا ہے یہاں اسلام ہی چلے گا، کسی اور نظریے یا ازم کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مولانا مودودی نے پوری قوت کے ساتھ مطالبہ نظام اسلامی کی مہم چلائی جس سے حکومت بوکھلا گئی، اسے اور تو کچھ نہ سوجھا بس اندیشہ نقص امن کے تحت مولانا مودودی کو گرفتار کرلیا۔ (جاری ہے)