اتفاقات کی سیریز کب تک ہو گی؟؟

171

پاکستان میں اتفاقات کو بڑی اہمیت حاصل ہے، کچھ عرصے قبل مبارک ثانی کیس عدالت میں آیا تو اتفاق سے اس میں چیف جسٹس نے قابل اعتراض ریمارکس شامل کر دیے۔ اس پر احتجاج ہوا ۔ اسے دبانے کی کوشش کی گئی لیکن ختم نبوت کے پروانے رکنے والے کہاں، بات چیف جسٹس کے منصب اور معزولی کے مطالبے تک پہنچ گئی اور اتفاق سے وفاقی حکومت نے ریویو پٹیشن کی اور عدالت نے ’’بڑی فراخدلی‘‘ سے اسے تسلیم کیا ۔ سب مطمئن تھے کہ شاید یہ اتفاق سے ایسا ہو گیا ہے ۔ لیکن ذرا غور کریں

سوال رہ رہ کر ذہن میں آئے گا کہ کیا سب کچھ اتفاق ہے ۔ لیکن اب یہ سب کچھ اتفاق نہیں لگ رہا ۔ پہلے چیزیں بکھری ہوئی تھیں لیکن اب انہیں ایک ترتیب سے سامنے لائیں اور پڑھیں تو پتا چلے گا کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی نکل گیا ہے ۔ بات انتخابات 2018ء کا میدان سجنے سے پہلے کی ہے ۔ سابقہ حکومت کے دور میں پورے پارلیمان کی جماعتوں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جو انتخابی نظام کی اصلاح کا کام کر رہی تھی ۔ اس کے کئی اجلاس ہوئے ان اجلاسوں میں انتخابی نظام میں بہت سی تبدیلیاں تجویز کی گئیں پھر اسمبلی کا اجلاس ہوا اس اجلاس میں جب یہ مسودہ منظوری کے لیے پیش کیاگیا تو پورے ایوان نے اس کی منظوری دے دی ۔ بعد میں پتا چلا کہ اس مسودے میں وہ چیزیں شامل کر دی گئیں جو کمیٹی نے تجویز نہیں کی تھیں ۔ اس حوالے سے حلف نامے میں ختم نبوت کے بارے میں چوری چھپے ترمیم کا انکشاف کرنے والے جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ تھے ۔انہوں نے نہ صرف اس ترمیم میں نقب زنی کی نشاندہی کی بلکہ چار ترامیم پیش کیں اور کہا تھا کہ اگر اکثریت کی بنیاد پر اسے روندا گیا تو بھی جماعت اسلامی اسمبلی کے اندر اور باہر اس کے خلاف جدو جہد جاری رکھے گی ۔’’اتفاق‘‘ سے 25 جولائی کے انتخابات میں صاحبزادہ طارق اللہ ہار گئے … یا ہرا دیے گئے عین اس وقت جب صاحبزادہ طارق اللہ اس سازش کا پردہ چاک کر رہے تھے اسمبلی سے رکن اسمبلی پی ٹی آئی کے حلیف جناب شیخ رشید باہر نکلے اور میڈیا سے گفتگو کر کے ختم نبوت کے پروانے کے طور پر احتجاج کیا جس سے یہ تاثر ملا کہ انہوں نے یہ مسئلہ سب سے پہلے اٹھایا ہے ۔

یہ اتفاقات کی سیریز ہے سینیٹ کے حافظ حمد اللہ کے ساتھ تر میمی قرار داد پیش کرنے والا سراج الحق ہار گیا یا ہرا دیا گیا ۔ اسے بھی اتفاق کہا جا سکتا ہے لیکن اتفاقات کی یہ سیریز پہلے سے چل رہی تھی ۔ اسمبلی میں قادیانیوں کے خلاف تقریر کرنے والے کیپٹن صفدر انتخابی میدان میں اترنے سے قبل ہی نا اہل ہو گئے ۔ شاید یہ بھی اتفاق ہو… اور یہ بھی اتفاق ہو سکتا ہے کہ پورے ملک میں اسلام سے تعلق رکھنے والی پارٹیاں شکست سے دو چار ہو گئیں ۔ اورکامیابی کسے ملی… شاید یہ بھی اتفاق ہو… کہ حلف نامے میں ترمیم کا ملزم بقول راجا ظفر الحق رپورٹ شفقت محمود وزیر تعلیم بنےاور اتفاق سے پی ٹی آئی کا حصہ ہیں ۔ کسی قسم کے دین سے تعلق یا فقہ سے بے پروا ۔ عامر لیاقت تھے جیت گئے اتفاق سے وہ بھی پی ٹی آئی کا حصہ تھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے کالے شہد کا رسیا علی امین گنڈا پور جیت گیا ۔وہ بھی اتفاق سے پی ٹی آئی کا نکلا ۔ … ایک اشتہاری اسلم سنگا پوری بھی جیت گیا ۔ کوئٹہ سے ایک افغان شہری جیت گیا جس کی پاکستانی شہریت ہی مشکوک ہے عام طور پر لوگ اسے اتفاق کہتے ہیں لیکن یہ اتفاق بھی عجیب ہے کہ اس وقت وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنی حلف برداری کے دوران جس اہم ترین لفظ پر لڑ کھڑا گئے وہ لفظ خاتم النبین تھا ۔ اور صدر مملکت کی جانب سے تصحیح کرانے کے باوجود وہ یہ لفظ خاتم النبین درست طریقے سے ادا نہیں کر سکے ۔ اتفاقات کے سلسلے کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں بھارت سے آنے والا مہمان نوجوت سنگھ سدھو تھا جو مرزا غلام احمد قادیانی کا مداح ہے اور اس کی تقریر ریکارڈ پر ہے کہ مرزا امن کا پیغامبر تھا ۔ مرزا نے امن کی باتیں کی ہیں ۔

سلسلۂ اتفاقات ختم اب نا اتفاقی کی بات بھی کر لیں دھرنوں کے دوران جناب عمران خان نے میاں عاطف کو وزیر خزانہ بنانے کی بات کی تھی جس کے بعد انہیں بتایا گیا کہ یہ تو قادیانی ہے خود تبلیغ بھی کرتا ہے ایسے آدمی کو وزیر بنانے کی بات کیوں کی… تو عمران خان صاحب اور ان کی ٹیم نے کہا تھا کہ ہمیں ان کے خیالات کا علم نہیں تھا… تو اب کیا ہو گیا ہے کہ خیالات کا علم ہونے کے باوجود میاں عاطف کو اقتصادی مشاورتی کونسل میں شامل کر لیا گیا۔ یہ اتفاق نہیں ہو سکتا… خیالات کا علم ہونے کے باوجود یہ صرف شامل کیا گیا بلکہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری صاحب کا نہایت جارحانہ اور غیر مہذب رویہ مزید اشتعال پھیلا رہا ہے ۔ نہ ان کو کسی بات کا علم ہے اور نہ وہ کچھ جانتے ہیں وہ دو کروڑ ووٹوں کا زعم ہے۔ ہم نے دو کروڑ ووٹ لیے ہیں دس لاکھ ووٹ لینے والے ہمیں ڈکٹیٹ نہ کریں… فواد صاحب جنرل پرویز ، ق لیگ ، ن لیگ اور نہ جانے کہاں کہاں کا سفر کرتے ہوئے پی ٹی آئی میں آئے ہیںا سے ہم اتفاق نہیں کہیں گے کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کا یقین ہونے کے بعد جو لوگ پی ٹی آئی میں جوق در جوق شامل ہوئے ہیں وہ سب کے سب تبدیلی کے لیے مخلص ہیں بلکہ ہمیں یقین ہے کہ اس غول میں قادیانی نواز لابی کے لوگ بھی شامل ہیں جو کھلے ، چھپے کسی نہ کسی طریقے سے حکمران ٹیم کاحصہ بن گئے ہیں ۔ ہمارا فواد چودھری سے سوال ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے فرمان کے مطابق جو اس کو نبی نہیں مانتا وہ کنجری کی اولاد ہیں ۔

ا س کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے تو کیا فرماتے ہیں فواد چودھری صاحب مرزا کو مانتے ہیں یا اس کے فرمان کے مطابق… وزیر اطلاعات نے معاملے کو مزید بگاڑ دیا ہے اسے اقلیتوں اور دنیا کے دبائو سے ملانے کی کوشش کی ہے ۔ ان کے دو کروڑ ووٹوں کی کوئی اہمیت نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اقلیتوں کو بحیرہ عرب میں پھینک دیں کیا ۔ تو ان سے کہنا یہ ہے کہ قادیانی خود کو غیر مسلم تسلیم نہیںکرتے وہ تو خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور اسلام ، نظریہ پاکستان اور جغرافیہ پاکستان کو بدلنا چاہتے ہیں۔ آئین پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر انہیں مشیر کیسے بنایا جا سکتا ہے ۔ آئین پاکستان کا منکر سرکاری عہدہ نہیں لے سکتا ۔ کوئی سول یا فوجی ادارہ اسے قبول نہیں کرتا تو ختم نبوت کے منکر کو مسلمان کیسے مان لیا جائے ۔ فواد چودھری صاحب کا انداز انتہا پسندانہ لگ رہا تھا ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی خود بھی پھٹ پڑیں گے ۔ اب ایک ہی دعا ہے کہ مدینے جیسی ریاست بنانے والے عمران خان اپنی دنیا اور آخرت دونوں بچانے کے لیے ان اتفاقات کی تردید کریں ۔ اب دنیا بھر میں جو شخصیت نشانہ ہے وہ ایمان کو جانچنے کا پیمان بھی ہے ۔ یہ جنگ ازل سے جاری ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔