اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کی حفاظت کا وعدہ فرمایا اور اس کا ذمہ لیا ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفٰیﷺ قیامت تک کے انسانوں کے لیے رحمت اور آخری نبی بناکر بھیجے گئے۔ آپﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ قرآن و سنت میں عقیدہ توحید کے بعد عقیدہ ختمِ نبوت دوسرا بنیادی اور سب سے اہم عقیدہ اور مسلمانوں کے ایمان کا لازمی جزو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مسالک، اکابر علماء و مشائخ بغیر کسی اختلاف کے اس بات پر متفق ہیں کہ عقیدہ ختمِ نبوت کا انکاری دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفویﷺ سے شرار بولہبی
دینِ اسلام کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے دور سے ہی چلا آرہا ہے۔ آپﷺ نے متعدد احادیثِ مبارکہ میں بھی نبوت کے جھوٹے دعویداروں کا ذکر پوری صراحت کیساتھ فرماکر اُمت کو اس فتنہ سے خبردار رہنے اور اس کے سدباب کے لیے چوکنا اور تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ خود آپﷺ کی حیاتِ طیبہ میں نبوت کے جھوٹے دعویدار آئے، جن میں سب سے نمایاں نام مسیلمہ کذاب کا ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ کا عمل مبارک اس اولیں جھوٹے مدعی نبوت سے متعلق ہمارے سامنے ہے۔ جس وقت جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے قاصد اُس کا خط لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تم دونوں اس کے دعوہ ٔ نبوت کو تسلیم کرتے ہو۔ ان قاصدوں نے ’’ہاں‘‘ میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر قاصدوں کو قتل نہ کرنے کا قانون نہ ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کروادیتا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نبوت و رسالت کے تعلق سے کتنی غیرت وحمیت تھی، اسی لیے مسیلمہ کے خط کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نام کیساتھ ’’کذاب‘‘ (بہت بڑا جھوٹا) کا سخت ترین لقب لکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں کبھی اتنا سخت ترین جملہ یا لفط کسی سے متعلق ادا نہیں فرمایا۔ جب کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار گذرتی یا ناراضگی کا سبب بنتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اتنا فرماتے کہ مابال الناس لوگوں کو کیا ہوگیا، یا ما بال فلان، فلاں شخص کو کیا ہوگیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں مسیلمہ کذاب کی جھوٹی نبوت کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑی گئی اور مسیلمہ کذاب کا کام تمام کیا گیا۔ اس جنگ میں 70 حفاظ و قراء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ اس قدر بڑی تعداد میں حفاظ و قراء صحابہ کرام کی شہادت (جوکہ عالمِ دین بھی ہوا کرتے تھے) پوری امت کے لیے پیغام تھا کہ جب کبھی اور جہاں کہیں جھوٹی نبوت کا فتنہ پیدا ہوگا اس کے مقابلہ کے لیے اپنی جان و مال کی قربانی دینے سے کبھی بھی اور کسی صورت میں روگردانی نہیں کرنی۔ اس جنگ میں کل 1200 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے، مؤرخین نے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں اور کفار کے مظالم سے شہید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ کل تعداد 259 بنتی ہے، جبکہ صرف تحفظِ ختم نبوت کے لیے 1200 جلیل القدر صحابہ کرام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے جامِ شہادت نوش کیا۔ اس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جھوٹی نبوت کا فتنہ کس قدر سنگین اور کتنا خطرناک ہے کہ اس کی سرکوبی اور بیخ کنی کے لیے اسلام کو اپنے مایہ ناز سپوتوں اور برگزیدہ ہستیوں کی ایک بڑی تعداد کو قربان کرنا پڑا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں، اس کا ذکر قرآن مجید میں سورۃ الاحزاب میں واضح اور دوٹوک الفاظ میں موجود ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَٰکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ (الاحزاب: آیت 40)
(” محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں”۔)
موجودہ دور میں نبوت کے جھوٹے دعویداروں میں سب سے بڑا اور نمایاں فتنہ غلام احمد قادیانی کے فتنہ قادیانیت کی شکل میں موجود ہے، آج بھی فتنۂ قادیانیت اپنے ناپاک عزائم اور خطرناک منصوبوں کے ساتھ پوری طرح سرگرمِ عمل ہے، شہری ودیہی علاقوں میں اس فتنہ کے ہم نوا اور ہم خیال اپنی گمراہ وباطل سرگرمیوں، اجتماعات، لٹریچر کی نشرواشاعت وغیرہ کے ذریعہ کفر وارتداد کے سوداگر اور مسلمانوں کے عقیدے و ایمان کے غارت گر بنے بیٹھے ہیں۔ قادیانیت دراصل جھوٹی نبوت کا اس دور کا سب سے بڑا فتنہ ہے، نبوت محمدی ﷺ کے بالمقابل جھوٹی نبوت کی دعوت اور اس کا پرچار ایک باحمیت مسلمان کے لیے ہرگز قابل برداشت نہیں ہوسکتا۔ دین اسلام میں عقیدہ توحید کے بعد دوسرا اہم اور بنیادی عقیدہ ختم نبوتؐ کا ہے،جس کے مطابق ہر مسلمان کے لیے اس بات پر ایمان لانا لازم ہے کہ حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی اور نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک جو بھی نبوت یا رسالت کی دعویداری کرے گا وہ جھوٹا اور کذاب ہوگا۔
فتنہ قادیانیت کے سدِباب کے لیے روزِ اول سے ہی دینِ اسلام کے شیدائی اور عاشقانِ رسولﷺ اپنی علمی، فکری و عملی جدوجد کا سلسلہ جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔ ماضی قریب میں جن اکابر علماء کرام، مشائخِ عظام نے فتنہ قادیانت کے سدباب اور تدارک کے لیے تاریخ ساز خدمات انجام دیں اُن میں سب سے نمایاں ایک نام بانی جماعتِ اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ہے۔ 7ستمبر1974ئکو پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم قررا دیا تو مولانا مودودیؒ نے فرمایا تھا:’’اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ عوام، علماء، مشائخ اور دینی و سیاسی جماعتوں اور قومی اسمبلی کی متفقہ کوششوں سے قادیانی مسئلہ بالآخر حل ہو گیا جو 90سال سے اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک عظیم اندرونی خطرہ بنا ہو اتھا‘‘۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے قیام پاکستان کے بعد فتنہ قادیانیت کا صحیح صحیح اندازہ لگایا اور پاکستان کے اسلامی نظریاتی کردار اور ریاست مدینہ کے بعد وجود میں آنے والی نظریاتی مملکت کے لئے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے سامنے چار نکاتی مطالبہ پیش کیا کہ اسمبلی اعلان کرے کہ
٭…. حکومت پاکستان کادین اسلام ہے۔
٭…. مملکت پاکستان کا بنیادی قانون اسلامی شریعت ہے۔
٭…. حکومت پاکستان تمام خلاف شریعت قوانین کو منسوخ کرے۔
٭…. پاکستان کے حکمران حدودالٰہی کے اندر رہ کر کام کریں۔
مولانا مودودیؒ نے ریڈیو پاکستان سے ’’اسلام کا نظام حیات‘‘ کے سلسلے میں پانچ تقاریر کیں جو نشر ہوئیں، جن میں ان چار نکات کے سارے پہلو واضح ہوکر سامنے آئے۔ جنوری 1951ئمیں مولانا سید سلمان ندویؒ کی زیر صدارت مختلف مکاتبِ فکر کے علمائکا اجلاس کراچی میں منعقد ہوا جس میں نظم مملکت کو قیام پاکستان کے بنیادی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کے لئے علمائنے 22نکات منظور کئے۔اس اجلاس کے معتمد مولانا ظفر احمد انصاری تھے، انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ’’یہ نکات کم و بیش مولانا مودودیؒ کے پیش کردہ نکات پر مشتمل ہیں‘‘۔1953ء میں تحریک ختم نبوت کا پھر سے آغاز ہوا۔ مارچ 1953ئمیں مولانا مودودیؒ کو ایک بار پھر گرفتار کر لیاگیا اور’’قادیانی مسئلہ‘‘نامی کتاب لکھنے کی پاداش میں فوجی عدالت نے انہیں موت کی سزا سنائی،اس پر نہ صرف پاکستان،بلکہ عالم اسلام میں شدید رد عمل ہوا۔سزائے موت پر مولانا مودودیؒ سے رحم کی درخواست دائر کرنے کا کہا گیا، مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔حکومت نے مولانا کی سزائے موت کے خلاف ہمہ گیر احتجاج سے مجبور ہو کر ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا، بالآخر 29اپریل1955ئکو آپ رہا ہوئے۔
7ستمبر1974 ء کو قومی اسمبلی نے مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کے لئے آئین میں ترمیم کر کے مسئلہ قادیانیت پاکستان میں ہمیشہ کے لئے حل کر دیا۔مسلم اور غیر مسلم کی تعریف بھی مولانا مرحوم کی تحریر سے ہی اخذ کی گئی،اس طرح اللہ تعالیٰ نے مولانا مودودیؒ کو بڑا منفرد مقام عطا کیا،یہ ان کی بالغ نظری،ہنودویہود کی سازشوں اور عالمی استعماری ہتھکنڈوں پر گہری نظر کا ہی نتیجہ تھا۔ مولانا مودویؒ قوم کو بار بار متنبہ کرتے رہے کہ اسلامیان پاکستان کو اس غفلت اور غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہو جانا چاہئے کہ اب ہماری ذمہ داری ختم ہو گئی ہے اور قادیانی مسئلہ پورے کا پورا حل ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا یہ پہلا قدم ہے جو صحیح سمت میں اٹھایا گیا،قادیانیت اور اس کی پشت پر جاری سازشوں کے سد باب کے لئے بہت سے ضروری اقدامات کرنا ابھی باقی ہیں، جن کے بغیر یہ قضیہ کسی نہ کسی شکل میں پھر سراٹھائے گا،اور زیادہ پیچیدگیوں کا باعث بنے گا اور اسلامیان پاکستان کی عقیدت ومحبت اور طویل قربانیوں کو بے ثمر کرنے کا ذریعہ بنے گا۔اس زمانے میںاکوڑہ خٹک دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ مولانا سمیع الحق شہید نے قادیانی مسئلے کے حوالے سے مولانا مودودیؒ کو خط لکھ کرچند سوال دریافت کئے تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے 6نومبر 1974کو جواب تحریرکیا۔
خیبر پختونخوا کے محقق، دانشور اور استاد پروفیسر نور ورجان نے اپنی کتاب ’’مکاتیب سید مودودیؒ‘‘ میں اس تاریخی خط کو شامل کیا ہے، جس سے مولانا مودودیؒ کی عقیدہ¿ ختم نبوت کی حفاظت اور دستوری ترمیم کے بعد ضروری اقدامات کی وضاحت اور بالغ نظری نظر آتی ہے۔ انہوں نے قانون سازوں اور تحریک ختم نبوت کی قیادت اور کارکنان کے لئے لائحہ عمل دے دیا۔ موجودہ حالات میں قادیانیت جس طرح عالمی استعمار کی مدد سے منہ زوری کا ارتکاب کر رہی ہے اور ہماری حکومتیں اپنی کمزوریوں اور بے تدبیریوں نیز مذہب بیزار سیکولر اور لبرل پالیسیوں کے سبب سے اس کی سرپرست بنی ہوئی ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ قادیانیت آج اپنی سازشوں کے ساتھ کھل کھیل رہی ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے سربراہ،جمعیت علمائے اسلام (س) کے سابق امیر حضرت مولانا سمیع الحق شہید کے خط کو من و عن اس تحریر کا حصہ بنا رہا ہوں، یہ بذات خود مکمل،ہمہ گیر شافی تحریر ہے۔
[لاہور] 6نومبر1974ء
محترمی و مکرمی، السلام علیکم!
آپ کا عنایت نامہ ملا،جس مَیں آپ نے قادیانی مسئلے سے متعلق چند سوالات دریافت کئے ہیں۔آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ قادیانی مسئلے کے حل پر آپ کے احساسات کیا ہیں؟ظاہر ہے کہ اس مسئلے کے حل سے آپ کی مراد قومی اسمبلی کا فیصلہ ہے۔بلا شبہ اسمبلی اور حکومت کا یہ فیصلہ نہایت مستحسن اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے مسرت انگیز ہے اور اس پر ہم جتنی بھی خوشی منائیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں، بالکل بجا ہو گا، لیکن ہماری حکومت، نیشنل اسمبلی اور عامۃ المسلمین کو اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے کہ اس سلسلے میں ان کی ذمہ داری اب ختم ہو چکی ہے اور اس فیصلے سے قادیانی مسئلہ پورے کا پورا حل ہو گیا ہے۔اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف پہلا قدم ہے،جو صحیح سمت میں اٹھایا گیا ہے اور ابھی بہت سے ضروری اقدامات ایسے باقی ہیں جن کے بغیر یہ قضیہ جوں کا توں باقی رہے گا،بلکہ خدشہ یہ بھی ہو سکتا ہے خدانخواستہ مزید پیچیدگیاں پیدا نہ ہوجائیں اور ہم اس اہم فیصلے کے فوائد سے محروم نہ ہو جائیں۔ آپ کا ایک عنایت نامہ پہلے آچکا تھا۔ اب یاددہانی اور تقاضے کا دوسرا خط آیا ہے،جس میں آپ نے جلد جواب مانگا ہے۔چند ضروری کرنے کے کام جو اس وقت ذہن میں آرہے ہیں،وہ درج ذیل ہیں:
(1)7ستمبر1974ئکو قومی اسمبلی نے آئینی ترمیم کے علاوہ ایک قرارداد بھی منظور کی ہے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ الف کے بعد دفعہ ب کا اضافہ کیاجائے جس میں درج ہو کہ ’’ایک مسلمان جو محمدﷺ کی ختم نبوت کے مفہوم مندرجہ آئینِ پاکستان دفعہ260شق نمبر3 کے خلاف عقیدے کا اعلان یا اس کے خلاف عمل یا تبلیغ کرے،وہ قابل سزاو تعزیر ہو گا‘‘۔ یہ قرار دادا غالبا عجلت میں مرتب اور پاس کر دی گئی ہے اور اس کی ابتدا میں مسلمان کا لفظ رکھنے کی وجہ سے اس میں ابہام و اشتباہ پیدا ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی مسلمان کے متعلق یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس جرم شنیع کا مرتکب ہو گا اور مرتکب ہونے کے بعد وہ مسلمان کہلانے کا مستحق رہ سکے گا۔ خود دستوری ترمیم ہی نے یہ طے کر دیا ہے کہ ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو گا،خواہ وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے،چنانچہ ان الفاظ کے ساتھ اس سزا کے اطلاق میں دشواری کا سامنا ہو گا۔لہٰذا تعزیرات پاکستان میں اس مجوزہ ترمیم کو واضح اور غیر مبہم بنانے اور اس کے مقصد تنفیذ کو آسان بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ایک مسلمان (A Muslim)کی بجائے ایک مدعی اسلام کیا جائے، تاکہ کوئی فرد بشر مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ختم نبوت کے مسلمہ عقیدے و مفہوم کے خلاف کسی قوم و عمل کا اظہار نہ کر سکے۔
(2) نیشنل اسمبلی کے فیصلے پر عمل درآمد کے لئے کچھ مزید قانون سازی بھی بالکل ناگزیر ہے۔ مثال کے طور پر انتخابی قوانین میں ایسی ترمیم ہونی چاہئے، جس کے مطابق ووٹروں کے فارم میں نام درج کراتے وقت ہر لاہوری اور ربوی مرزائی پر یہ قانوناً لازم قرار دیاجائے کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلموں کے خانے میں مرزائی یا احمدی لکھوائے اور ان دونوں گروہوں کا اپنے آپ کو مسلم لکھوانا جرم ہو گا، جس کی کم سے کم سزا حق رائے دہی سے محرومی ہو گی۔رجسٹریشن ایکٹ جس کے تحت شناختی کارڈ بن رہے ہیں،ان میں بھی ترمیم ہونی چاہیے جس کی رو سے کارڈ میں بھی ایسی تصریح لازم اور غلط بیانی موجب سزا ہو۔
(3) اسی طرح ہر ملازم حکومت پر بھی یہ لازم ہونا چاہئے کہ اگر وہ قادیانیوں کے ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک سے تعلق رکھتا ہے تو وہ اس کی باقاعدہ اطلاع اپنے محکمے کے توسط سے حکومت کو دے اور جو ایسا نہ کرے یا غلط اطلاع دے،اسے ملازمت کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔