اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جاری کیے گئے 16 صفحات پر مشتمل متفقہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان عدالت کو یہ ثابت نہیں کرسکے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست اور اس پر عدالت کا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں تھا، موجودہ مقدمے میں نیب ترامیم کو غیر آئینی ثابت کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ ترامیم میں سے بہت سی ترامیم کے معمار خود پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان تھے۔ عمران خان نے یہ درخواست نیک نیتی سے دائر نہیں کی تھی۔
عدالت نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرلیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ نیب قانون سابق صدر پرویز مشرف نے اقتدار میں آنے کے 34 دن بعد بنایا تھا، جس کا مقصد کرپشن کا خاتمہ بتانا تھا، لیکن دراصل اس کا استعمال سیاسی انتقام کے لیے کیا گیا۔ جن سیاستدانوں نے پرویز مشرف کا ساتھ دیا، انہیں نیب سے ریلیف ملا۔
فیصلے میں عدالت نے آئینی حدود کا احترام کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ اور مقننہ کو ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر کسی قانون کی دو تشریحات ہوں، تو وہ تشریح قبول کی جانی چاہیے جو قانون کے حق میں ہو۔
عدالت نے مزید کہا کہ عمران خان کی جانب سے دائر درخواست نیک نیتی پر مبنی نہیں تھی اور نیب ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کے حوالے سے ان کی درخواست قابل سماعت نہیں تھی۔
عدالت کے مطابق پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے، جب تک کوئی قانون کالعدم نہیں ہوتا، عدالتیں اس پر عمل کی پابند ہیں۔
فیصلے میں نیب ترامیم کو غیر آئینی قرار دینے سے متعلق دلائل کو غیر تسلی بخش قرار دیا گیا۔