بنگلا دیش کسی طور افغانستان نہیں بنے گا، بھارت کو ڈاکٹر یونس کا پیغام

257

بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے کہا ہے کہ ملک میں ہندوؤں پر حالیہ حملے فرقہ وارانہ کشیدگی کا نتیجہ نہیں بلکہ اِن حملوں کی نوعیت سیاسی ہے۔ اور یہ کہ بھارت اس حوالے سے جو بیانیہ اختیار کر رہا ہے وہ سراسر بے بنیاد ہے۔

بھارت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر محمد یونس نے کہا کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد سے اب تک معاملات قابو میں رہے ہیں۔ بھارت سمیت کئی ممالک یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شیخ حسینہ کے بعد کا بنگلا دیش بگڑتے بگڑتے افغانستان جیسا ہوجائے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ بنگلا دیش میں سیاسی و معاشی استحکام کی سطح بلند ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر محمد یونس کا کہنا تھا کہ بنگلا دیش کو سیاسی اور معاشی اعتبار سے بالکل درست اور مضبوط ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ عام انتخابات کے نتیجے میں حقیقی نمائندہ حکومت کے قائم ہونے سے حقیقی فرق واقع ہوگا۔ عوام بھی امن اور معاشی استحکام چاہتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں لوگ پُرسکون ہیں۔ بیرونی میڈیا بنگلا دیش کی غلط تصویر پیش کر رہے ہیں۔ ہندوؤں سمیت تمام ہی اقلیتیں سکون سے ہیں۔ اس حوالے سے مِس انفارمیشن پھیلائی جارہی ہے۔

بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ نے بھارتی قیادت سے کہا کہ وہ بنگلا دیش کے بارے میں اپنا بیانیہ بدلے اور ایسی باتیں نہ کرے جن سے کشیدگی پھیلے اور دوطرفہ تعلقات میں خرابی مزید بڑھے۔ بے بنیادی معاملات کی بنیاد پر گمراہ کن باتیں کرنے کے بجائے بھارتی قیادت کو دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے اور خطے میں حقیقی استحکام پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔

ڈاکٹر یونس کا کہنا تھا کہ بنگلا دیش میں ہندوؤں پر حملے ہوئے ہیں اور ہم نے اِن حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات بھی کیے ہیں مگر بھارتی قیادت اس حوالے سے بہت زیادہ پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ بھارتی میڈیا بھی اپنی توپوں کا رخ بھارت کی طرف کیے ہوئے ہیں۔ یہ وقت گمراہ کن باتیں کرنے سے زیادہ اعتماد پیدا کرنے والے معاملات کی طرف متوجہ ہونے کا ہے۔

ڈاکٹر محمد یونس نے کہا کہ بھارتی قیادت کو اس بیانیے سے آگے بڑھ کر بات کرنی چاہیے کہ بنگلا دیش صرف شیخ واجد کے ہاتھوں ہی میں محفوظ رہ سکتا ہے۔ نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات کا مزید کہنا تھا کہ بنگلا دیش کی عبوری انتظامیہ تمام معاملات کو مرحلہ وار درست کرتی جارہی ہے۔ ملک استحکام کی راہ پر گامزن ہے اور رفتار بھی پکڑ رہا ہے۔ کسی بھی پڑوسی ملک کو بنگلا دیش کے حالات سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہاں افغانستان جیسا کچھ نہیں۔ ویسی نراجیت ہمارے ہاں نہیں پائی جاتی۔ ادارے کام کر رہے ہیں۔ معیشت بھی بحالی کی ڈگر پر چل رہی ہے۔ بھارتی قیادت یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کر رہی ہے کہ شیخ حسینہ واجد کو ہٹانے کے بعد جو لوگ اقتدار میں ملک کو چلا رہے ہیں وہ اسلام نواز یا مذہبی شدت پسند ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی اسلام نواز ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ پوری عبوری انتظامیہ ہی اسلامی شدت پسند ہے۔ ایسی باتیں کرکے عالمی سطح پر بنگلا دیش کے بارے میں غلط امیج تیار کیا جارہا ہے۔ بنگلا دیش بھی ویسا ہی ہے جیسا کوئی اور ملک یا کوئی اور پڑوسی ہے۔

ڈاکٹر محمد یونس کا کہنا تھا کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے اور بنگلا دیش اُسے نظر انداز کرکے نہیں چل سکتا۔ لازم ہے کہ دوطرفہ تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی دور ہو اور دونوں ملک مختلف شعبوں میں تعاون اور اشتراکِ عمل کی راہ ہموار کریں۔