حماس، اسرائیل جنگ بندی مذاکرات کا مستقبل؟

214

فلسطین میں غزہ کے نہتے شہریوں کا قتل عام جاری ہے۔ دنیا تماشا دیکھ رہی ہے کہ عالمی قوتوں باالخصوص کی سرپرستی میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی اسرائیل اور اس کی فوج کو کھلی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ جنگ بظاہر ایک چھوٹے سے خطے غزہ میں جاری ہے جو فلسطین کا بھی ایک ٹکڑا ہے لیکن اس کی تباہ کاری عالمی جنگوں سے بھی زیادہ ہلاکت خیز ہے۔ اس لیے کہ ایک طرف دنیا کی سب سے طاقتور جنگی ٹیکنالوجی ایک فریق کو حاصل ہے، دوسری طرف دنیا کی طاقتور جنگی ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے والے نہتے فلسطینی عوام ہیں۔ عالمی سطح پر جنگ بندی کے مطالبے اور امریکی ثالثی میں مذاکرات کے باوجود فلسطین کے نہتے شہریوں کے امن ملنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ امریکا کے نئے اقدام نے اس کی ثالثی پر بھی سوالات اٹھادیے ہیں۔ امریکی حکومت نے اسرائیل کی فوج کے جنگی جرائم کا مقابلہ کرنے والی حماس کے قائدین پر اپنی عدالتوں میں نئے مقدمات درج کردیے ہیں جس کے مطابق امریکی محکمہ انصاف نے اسرائیل 7 اکتوبر کے حملے کو جواز بنا کر حماس کے رہنمائوں اور قائدین پر فرد جرم عائد کردی ہے جس میں حماس کے شہید سربراہ اسماعیل ہنیہ اور موجودہ سربراہ یحییٰ السنوار بھی شامل ہیں، جبکہ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیل کے وزیراعظم، وزیر جنگ اور اسرائیلی فوج کے سربراہ کے جاری کردہ گرفتاری کے چالان کو مسترد کردیا تھا۔ دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ امریکا کی نظر میں ہزاروں فلسطینیوں کا قتل جس میں عورتیں، بچے اور بوڑھے زیادہ تعداد میں ہیں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں چند ماہ کے اندر 40 ہزار سے زائد غزہ کے شہری شہید ہوچکے ہیں۔ جبکہ ان کی حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے اس لیے کہ یہ نہیں معلوم کہ غزہ کے کھنڈروں کے اندر کتنی لاشیں موجود ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی کو مغربی کنارے تک وسیع کردیا ہے، اس پس منظر میں ثالثی مذاکرات کا مقتدر کیا ہے سب کو نظر آرہا ہے۔