مال واسباب میں سے وہی کام آتا ہے یا آئے گا جس سے انسان اپنی ضروریات پوری کرلے یا جسے کسی کارِخیر میں لگا دے اور اس کا اجر ہمیشہ ہمیش کے لیے مالک المْلک کے پاس محفوظ ہوجائے۔ انسان بالخصوص تکاثر کی راہ اپنانے والوں کو سورہ النحل کی آیت 96 یہی پیغام دے رہی ہے: ’’تم لوگوں کے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہوجائے گا اور اللہ کے پاس جو کچھ (اس کا اجر) ہے وہی باقی رہنے والا ہے‘‘۔
ظاہر ہے کہ اللہ کے پاس جو کچھ باقی رہنے والا ہے اس سے مراد کسی کارِ خیر یا محتاج بندوں کی ضروریات کی تکمیل میں صرف کیے گئے مال کا اجر و ثواب ہے، جو اللہ کے پاس محفوظ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنی کتابِ ہدایت میں اصحاب ِ مال کو بار بار یہ تاکید کی ہے کہ وہ (اپنی جائز ضروریات کی تکمیل کے بعد) کارِخیر میں اپنا مال خرچ کرتے رہیں، اس سے پہلے پہلے کہ ان کی موت کا وقت آجائے اور خاص طور سے سورہ المنافقون کی آخری آیات بہت ہی واضح انداز میں یہ پیغام دے رہی ہیں۔ اسی ضمن میں عبداللہ ابن شِخِّیر سے مروی ایک حدیث نبویؐ کا حوالہ بھی بر محل معلوم ہوتا ہے:
سیدنا عبد اللہ ابن شخّیر سے روایت ہے کہ وہ نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ اَلہٰکْمْ التَّکَاثْرْ تلاوت فرمارہے تھے، پھر آپؐ نے فرمایا: انسان کہتا ہے، میرا مال، میرا مال، حالاں کہ انسان کا مال بس وہ ہے جو اس نے کھاکر ختم کردیا، پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ کرکے آگے (آخرت کے لیے) بڑھادیا۔ ( صحیح مسلم)
اس سے معلوم ہوا کہ صاحبِ مال جو مال صدقہ یا کسی کارِ خیر میں خرچ کرے یا کرتا ہے، وہی اس کے لیے ذخیرۂ آخرت بننے والا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ’تکاثر‘ کی راہ پر چلنے والے مال و دولت کے نہ صرف حریص ہوتے ہیں، بلکہ اسے بڑھانے کی فکر میں دن رات دوڑ دھوپ کرتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب، وہ مال خرچ کرنے سے کتراتے ہیں، اس لیے کہ وہ یہ گمان ر کھتے ہیں کہ اس سے مال کم ہوجائے گا۔ اس طرح متضاد برائیاں (حرص و بخل) ان کو اپنے گھیرے میں لیے رہتی ہیں۔
قرآن اس پہلو سے بھی اصحابِ مال کو سوچنے کی دعوت دیتا ہے کہ کسی کو بھی کم وبیش جو کچھ مال ملتا ہے وہ اللہ کی نوازش ہوتی ہے۔ سارے خزانوں کا مالک وہی ہے، وہ اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق کسی کو کم اور کسی کو زیادہ عطا فرماتا ہے۔ (اٰل عمرٰن: 73-74؛ العنکبوت: 62) اس میں کسی انسان کو کوئی اختیار نہیں، تو پھر کسی کے پاس زیادہ مال و دولت دیکھ کر اس سے حسد کے کیا معنی؟ مال و دولت کی ہوس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ کسی کے مال ودولت پر لالچ کی نظر ڈالنے کے بجائے جو کچھ ملا ہے اس پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا جائے اور قناعت کی راہ اختیار کی جائے، بلا شبہہ قناعت خود بہت بڑی دولت ہے۔ مال یا زیادہ مال کی طلب میں کوئی حرج نہیں، بس شرط یہ ہے کہ اس کے لیے جائز ذرائع اختیار کیے جائیں اور اللہ کا فضل و کرم طلب کر نے کے لیے اس سے خوب دعائیں مانگی جائیں۔ (النساء: 32)
اسی طرح یہ بھی ذہن میں رہے کہ کم یا زیادہ مال نصیب ہونے یا اس سے بالکل محروم رہنے والوں، سب کو مالک الملک آزما تا ہے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ دونوں صورتوں میں انسان کا کیا رویہ ہوتا ہے؟ کیا مال نصیب ہونے پر صاحبِ مال منعمِ حقیقی کو یاد کرتا ہے، اس کا شکر بجا لاتا ہے اور اس کی عطا کردہ نعمت میں محتاجوں و غریبوں کو شریک کرتا ہے یا اسے بھول جاتا ہے، اس کی ہدایات سے غافل ہوجاتا ہے، مال نصیب ہونے کے بعد وہ دوسروں پر فخر جتاتا ہے اور تکبر کا رویہ اپناتا ہے؟ اسی طرح صاحبِ مال کو اس طور بھی آزمایا جاتا ہے کہ اسے جو کچھ مال و اسباب ملا ہوا ہے اس سے اپنی ضروریات کی تکمیل یا کسی نیک کام میں خرچ کر تا رہتا ہے یا دن رات اسے اور بڑھانے کے چکّر میں پڑا رہتا ہے: یہ آیت اسی حقیقت کی یاددہانی کرارہی ہے:
’’ہم نے جو کچھ [ساز وسامان] زمین پر ہے اسے اس کے لیے زینت بنایا ہے تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے، آخر کار ان سب کو [ختم کرکے ایک دن] چٹیل میدان بنادینے والے ہیں‘‘۔ (الکہف: 7-8)
اس آیت کی تفسیر میں صاحبِ تفہیم القرآن تحریر فرماتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ سامانِ عیش نہیں، بلکہ وسائلِ امتحان ہیں جن کے درمیان تم کو رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ تم میں سے کون اپنی اصل کو فراموش کرکے دنیا کی ان دل فریبیوں میں گم ہوجا تا ہے اور کون ا پنے اصل مقام (بندگیٔ رب) کو یاد رکھ کر صحیح رویہ پر قائم رہتا ہے۔ جس روز یہ امتحان ختم ہوجائے گا اسی روز یہ بساطِ عیش اْلٹ دی جائے گی اور یہ زمین ایک چٹیل میدان کے سوا کچھ نہ رہے گی‘‘۔ ( تفہیم القرآن، ج3، ص 10-11)
دنیا کی چیزوں کی حقیقت سے متعلق قرآن کی اس وضاحت کے علاوہ بعض مقام پر خاص طور سے مال و دولت اور اولاد کی نسبت سے اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ ان کی حیثیت محض چند روزہ زیب وزینت کی ہے اور یہ سامانِ آزمایش ہیں، اصل میں نیکیاں ہی باقی رہنے والی اور موجبِ خیر بننے والی ہیں۔ ( الکہف: 46 ؛ اٰٰل عمرٰن:186؛ الانعام: 165)