اسلام اپنے ماننے والوں کو الفت ومحبت کی تعلیم دیتا ہے اور ایک مومن کی علامت ہی یہ بتاتی ہے کہ وہ سراپا الفت ومحبت ہوتا ہے جب وہ کسی سے ملتا ہے تو مسکرا کر ملتا ہے خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے اظہار ہمدردی اس سے چھلکتا ہے۔ بنی اکرمؐ نے فرمایا: ’’مومن محبت والفت کا مسکن ہوتا ہے اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو نہ کسی سے محبت کرے اور نہ جس سے کوئی محبت کرے‘‘۔ (احمد)
اسلام لوگوں سے ہمدردی سے پیش آنے کو صرف ایک اخلاقی خوبی کی حیثیت سے پیش نہیں کرتا ہے بلکہ اس کو اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بتاتا ہے۔
’’اللہ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا ہے جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا‘‘۔ (بخاری مسلم)
اسلام تمام انسانوں سے بھلائی وخیر خواہی کرنے کی تعلیم دیتا ہے اس کو ایمان کا جز قرار دیتا ہے اگر آج انسان بحیثیت انسان دوسرے کے ہمدرد ہوجائیں، ان کا خیال رکھیں، ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے رہیں تو دنیا سے بگاڑ ختم ہوجائے اور نفرت وعداوت کی فضا کے بجائے محبت والفت کی فضا قائم ہوجائے گی۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک دوسروں کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔ (مسند احمد) ’’لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے چاہتے ہو تو مسلم بنوں گے‘‘۔ (ترمذی)
’’میں نے ایک آدمی دیکھا ہے جو جنت میں اپنی مرضی سے اس کی نعمتوں اور لذتوں سے لطف اندوز ہورہا تھا، اس بنا پر کہ اس نے راستے سے ایک ایسے درخت کو کاٹ پھینکا تھا جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی‘‘۔ (مسلم)
نبی کریمؐ کو مکہ والوں نے ستایا اور آپ ہجرت (گھر بار چھوڑ نے پر مجبور) کرکے مدینہ تشریف لے گئے اور جب آپ کو اطلاع ملی کی مکہ میں قحط پڑا ہے تو آپؐ نے اہل مکہ کی بڑی تعداد میں مالی امداد وسامان سے مدد کی اور ام المومنین سیدہ صفیہؓ نے دو یہودیوں کو 30 ہزار مالیت کا صدقہ دیا۔ ابوسیرہ عمرو بن میمون اور عمرو بن شرجیل صدقہ فطر سے عیسائی راہبوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے دور نبوی میں اپنے مشرک بھائی کو تحفہ دیا۔ (بخاری)
کوئی سما ج ومعاشرہ اسی وقت اچھا ابھر سکتا ہے جب کہ وہاں رہنے والے ایک دوسرے کا خیال رکھیں، ایک دوسرے کے کام آئیں۔ اسی سے آپس میں محبت، انس، پیار پیدا ہوتا ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس کا حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے پڑوس کا خیال رکھیں۔ اس میں اسلام اور مسلمان ہونا شرط نہیں بلکہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے صرف پڑوس ہے۔ آپؐ نے فرمایا: پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ مستحق ہے۔ (بخاری)
جب تم گوشت پکاؤ تو شوربا زیادہ کرو اور اپنے پڑوسیوں کاخیال رکھو۔
’’اللہ کے نزدیک بہتر دوست وہ ہے جو اپنے دوست کے لیے اچھا ہو اور بہتر پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھا ہو‘‘۔ (ترمذی)
اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے پڑوسی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔(مسلم)
ایک دفعہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کے گھر بکری ذبح کی گئی۔ انھوں نے گھر والوں سے پوچھا کہ پڑوس میں بھی گوشت پہنچایا یا نہیں؟ گھر والوں نے کہا کہ پڑوسی تو یہودی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے کیا ہوا اور پھر اس یہودی پڑوسی کے گھر گوشت پہنچایا۔
سیدہ اسماء بنت ابوبکرؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ میری ماں میرے پاس آئی ہے اور وہ مشرکہ ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جس زمانے میں آپؐ نے قریش سے صلح کا معاہدہ فرمایا تھا۔ میں نے رسولؐ سے پوچھا کہ میری ماں میرے پاس آئی ہیں اور وہ دین اسلام سے بیزار ہیں تو کیا میں رشتے کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں اپنی ماں کے حقوق کا پاس ولحاظ رکھ کر حسن سلوک کرو۔ (مسلم)
رسولؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا تھا۔ تُو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میں کیسے آپ کی عیادت کرتا، آپ تو ساری کائنات کے رب ہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔
اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا، تو نے مجھے نہیں کھلایا۔ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا آپ تو ساری کائنات کے پروردگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا اور تو نے اسے نہیں کھلایا۔ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کھانے کو میرے یہاں پاتا۔
اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو تُو نے مجھے پانی نہ دیا۔
وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! میں کیسے آپ کو پانی پلاتا، آپ تو ساری کائنات کے رب ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہ پلایا اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو اس پلائے ہوئے پانی کو میرے یہاں پاتا‘‘۔ (مسلم)