سوال: میرا ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔ میں نے لڑکی کا نکاح اپنے ایک دوست کے لڑکے سے کرنے کا ارادہ کیا۔ پہلے تو انہوں نے آمادگی ظاہر نہیںکی، لیکن پھر اس شرط پر تیار ہوگئے کہ ان کی لڑکی کا نکاح میں اپنے لڑکے سے کردوں۔ اس سلسلے میں میں نے اپنے بعض دوستوں سے مشورہ کیا تو ایک صاحب نے کہا کہ اللہ کے رسولؐ نے ایسی شادیوں سے منع فرمایا ہے۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں۔ کیا ایسی شادی اسلامی شریعت کی رو سے جائز نہیں ہے؟
جواب: عہدِ جاہلیت میں نکاح کا ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ آدمی دوسرے سے کہتا تھا: تم اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح مجھ سے کردو، میں اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح تم سے کردوںگا اور دونوں کا مہر معاف ہوجائے گا۔ اسے ’نکاحِ شغار‘ کہا جاتا تھا۔ اللہ کے رسولؐ نے اس طریقۂ نکاح سے منع فرمایا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:
’’رسولؐ نے ’شغار‘ سے منع کیا ہے‘‘۔
دوسری روایت میں ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا:
’’اسلام میں ’شغار‘ جائز نہیں ہے۔
بعض روایات میں ’شغار‘ کا مطلب بھی بتایا گیا ہے:
’’شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی سے دوسرے آدمی کا نکاح (اس شرط پر) کردے کہ دوسرا اپنی بیٹی سے اس کا نکاح کردے اور ان میں سے کسی کے ذمے اپنی بیوی کا مہر نہ ہو‘‘۔
یہ حدیث بخاری (2115، 6960) مسلم (1415) کے علاوہ ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، احمد، بیہقی اور دیگر کتبِ حدیث میں مروی ہے۔ محدثین کے نزدیک ’شغار‘ کی یہ تشریح سیدنا ابن عمرؓ کے آزاد کردہ غلام نافع نے کی ہے۔ علامہ شوکانی نے’نکاح شغار‘ کی دو علّتیں قرار دی ہیں: ایک یہ کہ اس میں ہر لڑکی کو حقِ مہر سے محروم کردیا جاتا ہے۔ دوسری یہ کہ اس میں ہر نکاح دوسرے نکاح سے مشروط اور اس پر موقوف ہوتا ہے۔ (نیل الاوطار)
اگر اس طریقۂ نکاح میں دونوں لڑکیوں کا مہر تو مقرر کیا گیا ہو، لیکن دونوں نکاح ایک دوسرے سے مشروط اور معلّق ہوں تو بھی وہ ناجائز ہوں گے۔ روایات میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کے بیٹے عباس نے عبدالرحمن بن الحکم کی لڑکی سے اور عبدالرحمن نے عباس بن عبداللہ کی لڑکی سے نکاح کیا اور دونوں لڑکیوں کا مہر بھی مقرر کیا گیا، لیکن سیدنا معاویہؓ کو اس نکاح کی خبر پہنچی تو انہوں نے مدینہ کے گورنر مروان کو لکھا کہ اس نکاح کو فسخ کردیا جائے، اس لیے کہ یہ وہی نکاحِ شغار ہے، جس سے اللہ کے رسولؐ نے منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے نکاح شغار کی تین صورتیں بتائی ہیں اور تینوں کو ناجائز قرار دیا ہے: ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس شرط پر اپنی لڑکی دے کہ وہ اس کو بدلے میں اپنی لڑکی دے گا اور ان میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرار پائے۔ دوسرے یہ کہ شرط تو وہی ادلے بدلے کی ہو، مگر دونوں کے برابر مہر (مثلاً پچاس پچاس ہزار روپیہ) مقرر کیے جائیں اور محض فرضی طور پر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کیا جائے، دونوں لڑکیوں کو عملاً ایک پیسہ بھی نہ ملے۔ تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طور پر ہی طے نہ ہو، بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو‘‘۔ (رسائل ومسائل)
بدلے کی شادیوں میں عموماً تلخی اور ناخوش گوار ی کا اندیشہ رہتا ہے اور دونوں خاندانوں پر خانہ بربادی کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے۔ مثلاً اگرایک خاندان میں شوہر نے جا یا بے جا بیوی کی پٹائی کردی یا دونوں کے درمیان تعلق میں خوش گواری باقی نہیں رہی یا اس نے طلاق دے دی تو دوسرے خاندان میں لڑکے پر اس کے والدین یا دوسرے رشتے دار دباؤ ڈالیں گے کہ وہ بھی لازماً وہی طرزِ عمل اپنی بیوی کے ساتھ اختیار کرے۔
لیکن اگر دونوں رشتوں کی مستقل حیثیت ہو، دونوں لڑکیوں کا مہر طے کیا جائے اور ان کو ادا کیا جائے اور ایک رشتہ کسی بھی حیثیت میں دوسرے رشتے کو متاثر کرنے والا نہ ہو تو ایسے رشتوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔