’’وہ‘‘ بھی ٹھیرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد

401

فیض احمد فیض نے سقوط ڈھاکہ کے بعد اپنی شہرہ آفاق نظم میں استفہامیہ انداز میں پوچھا تھا کہ ’’خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘‘۔ آج ترپن سال بعد وقت کا دھارا ایسا پلٹا کہ اب بھارتی بہ الفاظ دِگر یہی بات کہہ رہے ہیں ’’ہم کہ ٹھیرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد‘‘۔ تاریخ کے سینے میں ورق ورق پر ایسے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں جب وقت بدلتے ہی اثاثے بوجھ بن جاتے ہیں۔ جب ناگزیر سمجھے اور کہلانے والے وقت کے کوڑے دان کا حصہ بن کر لوحِ حافظہ سے حرف ِغلط کی طرح مٹ جاتے ہیں۔ غیروں کی کٹھ پتلی بن کر اپنے عوام سے محو ِ جنگ حکمرانوں کے لیے یہ وقت تو جلد یا بدیر آکر ہی رہتا ہے۔ ایسے حکمران جب حالات کی زد میں آتے ہیں تو پھر سب سے پہلے آنکھیں وہی پھیرتے ہیں جنہوں نے انہیں بے رحمی سے اپنے ہی عوام کے خلاف استعمال کیا ہوتا ہے۔ اس خطے میں ایران کے رضا شاہ پہلوی ایک ایسی ہی مثال تھے۔ رضا شاہ پہلوی خطے میں امریکا کے سب سے بااعتماد شراکت دار اور مہرہ تھے اور اسی لیے امریکا نے انہیں بچانے کے لیے ایرانی عوام کے ساتھ مخاصمت اور جنگ مول لی تھی۔ جب ایرانی عوام کی انقلابی لہروں میں رضا شاہ پہلوی کا اقتدار بہہ گیا تو امریکا نے انہیں پناہ دینے سے انکار کیا اور آخرکار مصر ہی کو انہیں پناہ دینا پڑی۔ بنگلا دیش کی حسینہ واجد ان دنوں تاریخ کے اسی عتاب کا شکار ہیں۔ حسینہ واجد نے اپنے ملک کو بھارت کی کالونی بنائے رکھا۔ بنگلادیش کی فیصلہ سازی پر بھارت کا مکمل کنٹرول قائم کرنے میں فراخ دلی کا مظاہر کیا۔ جب وقت پلٹا تو بھارت فوری طور پر حسینہ واجد کو پناہ دینے پر تو مجبور ہوا مگر اب جوں جوں ان کا قیام طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے تو بھارت کی سفارتی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں اور بھارت کا یہ اثاثہ اس اب اس کے لیے بوجھ بنتا جا رہا ہے۔

یہ دنیا کے ان سب حکمرانوں کے لیے سبق ہے جو غیر ملکی طاقتوں کے اشاروں پر پالیسیاں بناتے اور اپنے عوام کی خواہشات کے برعکس طرز حکمرانی اپناتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق ہی کو دیکھیں انہوں نے سرد جنگ کے آخری معرکے میں امریکا کی ہر ممکن مدد کی مگر جب ان کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا تو صدر ریگن نے دو سطری بیان میں افسوس کا اظہار کرکے اس حادثے کی فائل داخل ِ دفتر کر دی حالانکہ اس حادثے میں امریکی سفیر اور فوج کے ایک اعلیٰ افسر سمیت دو افراد بھی مارے گئے تھے۔ بھارت حسینہ واجد کی میزبانی تو کر بیٹھا مگر جوں جوں یہ محسوس ہور رہا ہے کہ ان کا بھارت میں قیام اور میزبانی کا ناپسندیدہ فریضہ طوالت اختیار کر رہا ہے تو بھارت کی اُلجھن بڑھتی جا رہی ہے۔ بھارت کو بنگلا دیش کی ریاست اور راندۂ عوام حسینہ واجد میں سے کسی ایک کے انتخاب کا کڑوا گھونٹ پینا پڑ رہا ہے۔ بنگلا دیش میں حسینہ واجد کے خلاف کئی مقدمات درج ہوگئے ہیں اور قانون ان کا انتظار کر رہا ہے۔ ایسے میںکسی بھی لمحے بنگلا دیش کی عبوری حکومت حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ اس مطالبے کو نظر انداز کرنے سے بنگلا دیش اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کا عنصر بڑھ سکتا ہے۔ دونوں ملکوں میں تعلقات کی خوش گواریت کا وہ میعار اب باقی نہیں رہا جو حسینہ واجد کے دور میں تھا بلکہ تعلقات میں خرابی کا ایک خودکار نظام حرکت میں آگیا ہے۔ بنگلادیش کے عوام اس تحریک کو ’’دوسری آزادی‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ گویا کہ پہلی آزادی پاکستان سے حاصل کی اور اب دوسری آزادی بھارتی غلبے سے حاصل ہوئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنگلا دیشی عوام اپنے ملک پر بھارتی غلبے سے اس قدر تنگ وبیزار تھے کہ انہیں یہ بھارت کی غلامی ہی معلوم ہوتا تھا۔ اس بوجھ سے نکل کر وہ خود کو آزاد سمجھنے لگے ہیں۔

حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد بنگلا دیش اور بھارت میں دبے ہوئے سرحدی تنازعات نے سر اُٹھانا شروع کر دیا ہے۔ بنگلا دیش کے بارڈر گارڈز نے اپنی حدود میں داخل ہونے والے بھارتی ملاحوں کو گرفتار کیا ہے۔ یہ کشتیاں مویشیوں اور انسانوں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اب بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس ان ملاحوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہی ہے مگر بنگلا دیش کے حکام ان کی حوالگی سے انکاری ہیں۔ بنگلادیش چار ہزار کلو میٹر تک بھارت میں گھرا ہوا ہے۔ سرحدی اسمگلنگ دونوں ملکوں کے درمیان پرانا تنازع ہے حسینہ واجد نے برسراقتدار آتے ہی اس معاملے پر بھارت کے ساتھ معاہدہ کیا تھا مگر اب یہ معاہدہ بھی اپنی افادیت کھو رہا ہے۔ اسی طرح بنگلا دیش کے موجودہ وزیر اطلاعات اور حالیہ طلبہ تحریک کے جواں سال قائد ناہید اسلام نے الزام عائد کیا ہے کہ بنگلا دیش کے سرحدی اضلاع میں آنے والے سیلاب کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ بھارت نے پیشگی اطلاع دیے بغیر ڈیم کے سپل وے کھول دیے تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے اسے بھارت کی آبی جارحیت قرار دے کر بھارت مخالف مظاہرہ کیا۔ طلبہ نے انڈین ویزہ سینٹر کے باہر بھی احتجاج کیا جس کے بعد ویزہ سینٹر حکام نے اپنے لیے اضافی سیکورٹی کی درخواست کی تھی۔ بنگلا دیش کے عوام حسینہ واجد کے تمام اقدامات کے پیچھے بھارت کا کردار دیکھتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق بھارت نے ہر جعلی انتخاب کا خیر مقدم کر کے بنگلا دیش کے عوام کی رائے کا مذاق اُڑایا ہے۔ یہی توہین آمیز رویہ آج بھارت مخالف جذبات کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ حسینہ واجد نے بھارت کو یہ کہہ کر ڈرایا کہ اگر وہ اقتدار میں نہ رہیں تو اسلامی شدت پسند بنگلا دیش کا کنٹرول سنبھال

لیں گے۔ اسی خوف کے تحت بھارت نے اپنے تمام انڈے اور جھنڈے حسینہ واجد کی ٹوکری میں ڈالے رکھے۔ بنگلا دیش کی ہندو آبادی بھی چونکہ بھارت کے زیر اثر مکمل طور پر حسینہ واجد کے ساتھ کھڑی رہی اسی لیے عوامی اشتعال کا رخ ہندو آبادی کی طرف بھی ہے۔

آج کا بنگلا دیش بھارت کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ بھارتی اخبار ’’دی وائر‘‘ نے یہی سوال جب بنگلا دیش کے ہندو راہنما رانا داس گپتا سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا ’’جیسا ہندوستان مخالف ماحول پاکستان میں ہے ویسا ہی بنگلا دیش میں بھی ہے۔ 1947 کے بعد ملک کی تقسیم کے بعد ہی سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب مسلمان اور ہندوستان کا مطلب ہندو ہے۔ اس لیے بنگلا دیش کے لوگوں کے لیے ہندو اور ہندوستان ایک ہیں اور وہ دونوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ہندوستان مخالف جذبات ہندو مخالف جذبات کو جنم دیتے ہیں۔ اگرچہ بنگلا دیش پاکستان سے الگ ہوچکا ہے لیکن ہندومخالف جذبات اب بھی موجود ہیں‘‘۔

دوسری طرف بنگلا دیش کے انگریزی اخبار ڈھاکہ ٹریبون نے لکھا ہے کہ گوکہ بنگلا دیش میں سب اچھا نہیں جہاں تک اقلیتوں کی بات ہے بنگلادیش میں اقلیتیں بھارت کی نسبت زیادہ محفوظ ہیں۔ اس طرح حسینہ واجد کا بھارت میں قیام بھارت بنگلادیش تعلقات کے اوپر لٹکتی مستقل تلوار ہے اسی لیے بھارت کی پوری کوشش ہے کہ وہ جلد از جلد یہ بوجھ کسی مغربی یورپی یا خلیجی مسلمان کو منتقل کردیں تاکہ بنگلا دیش میں بھارت مخالف جذبات کا گراف مزید بلند نہ ہو سکے کیونکہ خطے میں بھارتی کی تنہائی آخری حد کو چھورہی ہے۔ پاکستان کے ساتھ اس کا دشمنی کا دیرینہ تعلق تو تھا ہی نیپال، سری لنکا اور مالدیپ بھی اس کے اثر رسوخ سے باہر نکل گئے ہیں لے دے کر حسینہ واجد کا بنگلا دیش ہی جنوبی ایشیا میں بھارت کا واحد بااعتماد ساتھی تھا اسے بھی نوجوان نسل بھارتی مدار سے باہر نکال کر لے آئی ہے۔