خدا بچائے، کس طرف مرا وطن چلا ہے یہ

312

بلوچستان کے حوالے سے دل کی گلیوں میں خون ہی خون ہے۔ 26 اگست 2024 کو وہاں جو کچھ ہوا، شہر شہر دہشت گردی کے واقعات نے صوبے کو جس طرح خون میں نہلادیا بغاوت کے سائے جس طرح گہرے ہوتے نظر آئے، قومی اُفق پر بے یقینی ہی بے یقینی چھائی ہوئی ہے۔ گاڑیاں نذرآتش، ریلوے پل تباہ، آگ کے شعلے، رائفلوں سے نکلی ہوئی گولیاں، خوف کی چیخیں، قومیت کے نام پر ناکہ لگا کر اہدافی قتل، فائرنگ، دھماکے، ریلوے ٹریک اُڑانے کے واقعات، خودکش حملے۔ کہا جارہا ہے کہ تقریباً بیس گھنٹے بلوچستان کے زمینی رابطے ملک سے منقطع رہے اور وہ دہشت گردوں کے رحم وکرم پر رہا۔ تفصیلات کا یارا نہیں۔ آج حمایت علی شاعر مرحوم بہت یاد آرہے ہیں۔ ان کی 1983ء کی ایک نظم ملا حظہ فرمائیے اور دیکھیے کہ ہمارا مرض کتنا پرانا ہے اور کس طرح اس مرض کی شدت بڑھتی ہی جارہی ہے:

ابھی تو کچھ نہیں ہوا، ابھی تو ابتدا ہے یہ
ابھی وہ وقت آئے گا کہ ساری قوم روئے گی
اور اپنے دل کے داغ اپنے آنسوئوں سے دھوئے گی
یہ سر زمین پاک ہے کہ ارضِ کربلا ہے یہ
یہ لوٹ مار قتل و خوں، ڈکیتیاں، تباہیاں
بموں کی زد پہ ہنستی کھیلتی، حسین بستیاں
بہشت میں کہاں سے اک جہنم آ گیا ہے یہ
یہ کس کی آبرو لٹی، یہ کس کا سینہ شق ہوا
یہ کون بھائی ہے کہ جس سے بھائی جاں بحق ہوا
یہ خودکشی کی مشق ہے، کہ جنگ خانہ ساز ہے؟
کہ غزنوی کمال فن بصورت ایاز ہے
جو ہم میں جاں بلب ہے وہ ضمیر پوچھتا ہے یہ
ہم اپنے ہاتھ ہی سے اپنا جسم کاٹتے بھی ہیں
پھر اپنی ہی زبان سے اپنا خون چاٹتے بھی ہیں
اگر ہے یہ جنون تو جنوں کی انتہا ہے یہ
سنا ہے اس فساد میں پڑوسیوں کا ہاتھ ہے
ہماری اپنی آستیں میں دشمنوں کا ہاتھ ہے
خبر نہیں فسانہ ہے کہ امر واقعہ ہے یہ
دیار پاک میں سدا عجیب سلسلہ رہا
زبان و دل کے درمیاں ہمیشہ فاصلہ رہا
سیاست وطن کا اک طویل سانحہ ہے یہ
خدا و دیں کے نام پر اگر یہ قوم ایک تھی
تمام امتوں کے درمیان سب سے نیک تھی
تو آج کیوں ہے بدترین، کیوں بہم جدا ہے یہ
وطن میں رہ رہے ہیں اور وطن سے واسطہ نہیں
ہمارے گرد و پیش، آج کوئی راستہ نہیں
زمین پر ہیں یوں قدم کہ زیرپا خلا ہے یہ
میں اک نوجواں کی گفتگو یہاں رقم کروں
مری تو آنکھ نم ہے، آپ کی بھی آنکھ نم کروں
وہ کہہ رہا تھا، آپ کے گناہ کی سزا ہے یہ
وہ قوم جو بکھر چکی، وہ کیا سمٹ سکے گی اب؟
یہ نفرتوں کی ہے خلیج، خاک پٹ سکے گی اب؟
کہ آپ ہی کے نقش پا کا اک سلسلہ ہے یہ
بزرگ اپنے فیصلوں پہ شرم سار ہوں نہ ہوں
حقیقتوں سے ان کے خواب، ہم کنار ہوں نہ ہوں
ہمیں جو آپ نے دیا وہ کاسۂ گدا ہے یہ
کہا گیا تھا یہ وطن بنا ہے، سب کے واسطے
تو ہم پہ آج کیوں ہیں بند زندگی کے راستے
یہ خانہ جنگیاں نہیں جہاد للبقا ہے یہ
میں سوچتا ہوں، ایسے نوجواں کو کیا جواب دوں؟
نظر سے گر چکے جو خواب ان کو کیسے آب دوں؟
میں کس طرح کہوں اسے، فنا کا راستہ ہے یہ
اِدھر ہیں اقتدار کے نشے میں چور حکمران
اُدھر عوام کا ہجوم مشتعل، شرر فشاں
اور ان کے درمیاں وطن کا بخت نارسا ہے یہ
یہ فاصلے تھے جو ہمیں دونیم کر گئے
ہر اک خواب چھین کر ہمیں یتیم کر گئے
اور اب وطن ہے کیا؟ ہوا کی زد پہ اک دیا ہے یہ
دھڑک رہا ہے دل مرا وطن کا حال دیکھ کر
یہ انتشار دیکھ کر یہ اشتعال دیکھ کر
خدا بچائے، کس طرف مرا وطن چلا ہے یہ
ابھی تو کچھ نہیں ہوا، ابھی تو ابتدا ہے یہ