احیائے اسلام کی تحریک۔ ایک تعارف

439

(1)

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی کے قیام سے بہت پہلے ہی ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کی احیائے اسلام کی تحریک کے حق میں ذہن سازی شروع کردی تھی۔ وہ مسلمانوں کو بتارہے تھے کہ اسلام محض چند عبادات کا مجموعہ نہیں، ایک مکمل ضابطہ حیات سے عبارت ہے۔ وہ معیشت، معاشرت، تعلیم، تجارت، عدالت اور حکومت۔ غرض ہر شعبہ زندگی میں اپنا غلبہ چاہتا ہے اور بقول اقبال اس بات کا قائل نہیں ہے کہ

ملّا کو جو ہے ہند سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

اسلام اللہ کا دین ہے اور انبیائے کرام کے ذریعے بتایا ہوا طریق زندگی ہے۔ یہ دنیا میں مغلوب رہنے کے لیے نہیں غالب رہنے کے لیے آیا ہے۔ اسلام دنیا میں ہر اس نظام سے ٹکراتا ہے جو انسانوں کا بنایا ہوا ہے اور اس زمین کو ظلم و ناانصافی سے آلودہ کررہا ہے۔ مولانا موودی نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ذریعے اپنے ان خیالات کی ترویج جاری رکھی۔ جب انہیں خط و کتابت کے ذریعے اندازہ ہوا کہ برصغیر میں ان کے ہم خیال افراد کی ایک قابل ذکر تعداد موجود ہے اور وہ جدید خطوط پر احیائے اسلام کی ایک تحریک برپا کرنے کے حق میں ہیں تو مولانا مودودی نے انہیں لاہور میں اپنی قیام گاہ پر آنے کی دعوت دی۔ واضح رہے کہ وہ علامہ اقبال کے مشورے پر حیدر آباد دکن سے ہجرت کرکے پنجاب آگئے تھے۔ چنانچہ ہم خیال لوگوں کا ایک اجلاس 25 اگست 1941ء کو اسلامیہ پارک لاہور میں منعقد ہوا۔ شرکائے اجلاس کی تعداد 75 بتائی جاتی ہے جس میں برصغیر کے نامور علمائے دین بھی شامل تھے، یہ سب لوگ اس بات پر غورو خوض کے لیے جمع ہوئے تھے کہ موجودہ مایوس کن صورت حال میں امت مسلمہ کی نجات کا راستہ کیا ہے۔ کیا ہم اپنی انفرادی کوششوں سے مسلم معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں یا اس کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں متعدد حضرات نے اظہار خیال کیا اور اس بات پر بالعموم اتفاق رائے پایا گیا کہ اجتماعی کوششوں ہی سے مسلم امہ میں انقلاب کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے اور اسلام کو ایک کارفرما قوت کی حیثیت سے متعارف کرایا جاسکتا تھا۔ بنیادی طور پر یہ آئیڈیا مولانا سیدابواعلیٰ مودودی کا تھا جو اجلاس کے حامی بھی تھے چنانچہ سب کی نظریں مولانا مودودی کی طرف اُٹھنے لگیں کہ وہ اجتماعی کوششوں کے لیے کیا نظم تجویز کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہم خیال افراد پر مشتمل ایک جماعت قائم کرنے کی تجویز پیش کی اور اسے جماعت اسلامی کے نام سے موسوم کیا۔ شرکائے اجلاس نے اس کی تائید کی۔ اب دوسرا مرحلہ جماعت کے امیر کا انتخاب تھا۔

مولانا نے شرکائے اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’جماعت بن جانے کے بعد میں آپ ہی میں سے ایک فرد ہوں اب یہ جماعت کا کام ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی اہل تر آدمی کو اپنا امیر منتخب کرے پھر یہ اس امیر کا کام ہے کہ وہ جماعت اسلامی کو ایک تحریک کی صورت میں چلانے کے لیے پروگرام مرتب کرے اور اسے عمل میں لائے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ’’کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ جب دعوت میں نے دی ہے تو اس تحریک کی قیادت کو بھی میں اپنا حق سمجھتا ہوں ہرگز نہیں، نہ میں اس کا خواہش مند ہوں، نہ اس نظریے کا قائل ہوں کہ تحریک کے داعی کو اس کا قائد بھی ہونا چاہیے، نہ مجھے اپنے متعلق یہ گمان ہے کہ اس عظیم الشان تحریک کا لیڈر بننے کی مجھ میں اہلیت ہے۔ جماعت اسلامی قائم ہونے کے بعد اب میری موجودہ حیثیت ختم ہوگئی ہے۔ جماعت اپنا جو بھی امیر منتخب کرے اس کی اطاعت کرنا ہر فرد جماعت کی طرح میرا بھی فرض ہوگا‘‘۔ اجلاس میں متعدد نامور علمائے دین اور اہم افراد بھی تھے لیکن سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ احیائے اسلام کی تحریک کا نظریہ چونکہ مولانا مودودی نے پیش کیا ہے اور وہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک جماعت کا خاکہ بھی پیش کرچکے ہیں اس لیے تمام تر معذرت کے باوجود امارت کا بار بھی انہیں ہی اُٹھانا چاہیے۔ چنانچہ اتفاقِ رائے سے مولانا سید ابواعلیٰ مودودی کو جماعت اسلامی کا پہلا امیر منتخب کرلیا گیا۔ انہوں نے بہ امر مجبوری یہ ذمے داری قبول کرلی اور کلمہ شہادت پڑھ کر ازسرنو اپنے ایمان کی تجدید کی۔ باقی شرکائے اجلاس نے بھی اپنے امیر کی پیروی میں اس عمل کو دہرایا۔ پھر مولانا سید ابواعلیٰ مودودی نے بحیثیت امیر جماعت شرکائے اجلاس سے مختصر خطاب فرمایا اور کہا کہ ’’میں آپ کے درمیان نہ سب سے زیادہ علم رکھنے والا تھا، نہ سب سے زیادہ متقی، نہ کسی اور خصوصیت میں مجھے فضیلت حاصل تھی لیکن بہرحال جب آپ لوگوں نے مجھ پر اعتماد کرکے اس کارِ عظیم کا بار مجھ پر رکھ دیا ہے تو میں اب اللہ سے دُعا کرتا ہوں کہ مجھے اس بار کو سنبھالنے کی قوت عطا فرمائے اور آپ اس اعتماد کو مایوسی میں تبدیل نہ ہونے دے‘‘۔

مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کا امیر منتخب ہوتے ہوئے اگرچہ انتہائی کسرنفسی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن بعد کے حالات و واقعات نے ثابت کیا کہ وہی اس منصب کے اہل تھے۔ اگر کوئی دوسرا شخص یہ منصب سنبھالتا تو جماعت اسلامی کو ابتدا ہی میں جو جھٹکے لگے وہ انہیں برداشت نہ کرپاتا اور جماعت انتشار کا شکار ہو کر بکھر جاتی اور اس کا نام لیوا بھی کوئی نہ ہوتا، لیکن مولانا مودودی نے نہایت پامردی اور صبر و حکمت کے ساتھ ہر بحران کا سامنا کیا اور جماعت اسلامی کو پائیدار بنیادوں پر استوار کردیا۔

یہ بات درست اور دشمن سب تسلیم کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جس میں موروثیت نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص عہدے کا طلب گار ہو تو وہ جماعت اسلامی کے دستور کے مطابق نااہل قرار پاجاتا ہے اس طرح جماعت نے ایک ایسا جمہوری و شورائی نظام وضع کیا جس کے تحت مناصب کے لیے اہل، مخلص، دیانتدار اور ایثار پیشہ افراد کا انتخاب ہی ممکن ہوسکا۔ واضح رہے کہ جماعت اسلامی کا قیام اگست 1941ء میں عمل میں آیا جبکہ اس سے سال ڈیڑھ سال پہلے اسی لاہور میں برصغیر کے مسلمانوں کے ایک نمائندہ اجتماع میں مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ وطن کے قیام کی قرار داد منظور ہوچکی تھی جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس قرار داد کے منظور ہوتے ہی قائداعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں ’’تحریک پاکستان‘‘ شروع ہوگئی۔ قائداعظم نے قیام پاکستان کے لیے دو قومی نظریے کو بنیاد بنایا اور بہ بانگ دہل کہا کہ مسلمان ہندوئوں سے الگ قوم ہیں، ان کی زبان، ان کا لباس، ان کا طرزِ معاشرت، ان کا عقیدہ سب کچھ ہندوئوں سے مختلف ہے، اس لیے مسلم اکثریت والے علاقوں میں مسلمانوں کا الگ وطن قائم ہونا چاہیے۔ مولانا مودودی نے ’’مسئلہ قومیت‘‘ لکھ کر قائد اعظم کے موقف کو تقویت پہنچائی اور اصولی طور پر قیام پاکستان کی حمایت کی۔ مولانا مودودی نے اپنی تحریروں کے ذریعے مسلم لیگ کو وہ فکری و نظریاتی مواد فراہم کیا جس کے ذریعے وہ تحریک پاکستان کو صحیح خطوط پر استوار کرسکتی تھی۔ جماعت اسلامی کے نمائندوں نے قائداعظم سے بھی ملاقات کی اور انہیں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ ان ساری کوششوں کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان قائم ہو تو کسی کو یہ شبہ نہ رہے کہ اس کی منزل اسلام ہے اور مسلمانوں کی اس ریاست میں اسلام کا اجتماعی نافذ ہو کر رہے گا۔ پورے برصغیر میں گونجنے والے اس نعرے ’’پاکستان کا مطلب کیا۔ لاالہ الااللہ‘‘ نے بھی واضح کردیا تھا کہ پاکستان کوئی سیکولر ریاست نہیں ہوگا بلکہ اس میں اسلام کا سیاسی، اخلاقی، تہذیبی، قانونی اور معاشی نظام رائج کیا جائے گا۔ جماعت اسلامی درحقیقت احیائے اسلام کی وہ تحریک تھی جس کا پہلا تجربہ پاکستان میں متوقع تھا اور مولانا مودودی اپنی تحریروں کے ذریعے اس کی مکمل تیاری میں مصروف تھے۔ مولانا نے 1941ء سے 1947ء کے دوران جو کچھ لکھا وہ آج بھی جماعت اسلامی کا قیمتی اثاثہ ہے اور اس سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ (جاری ہے)