پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ کے طور پر اکتوبر میں اپنے ہاں اجلاس کی میزبانی کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک دعوت نامہ بیزار اور ناراض پڑوسی نریندر مودی کی جانب بھی ایک موہوم امید کے ساتھ اْچھال دیا گیا۔ کانفرنس سے پہلے وزارتی سطح کے مذاکرات کے کئی ادوار ہونا ہیں جن میں ثقافتی تجارتی معاشی اور انسانی تعلقات اور تعاون پر غور ہوگا۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں روس، چین، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ گزشتہ برس اس تنظیم کا اجلاس بھارت میں ہوا تھا اور بارہ سال بعد پاکستان کے کسی نمائندے نے اس وقت کے وزیر خارجہ بلاول زرداری کی صورت میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔ بھارت میں ان کی خاطرخواہ پزیرائی تو درکنار بڑی حد تک نظر انداز کیا گیا تھا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان پْر امید ہیں کہ نریندر مودی دورۂ پاکستان کی دعوت قبول کرلیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات پانچ اگست 2019 کے بعد سے منجمد یا کسی حد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ بھارت تو پاکستان کی طرف سے دوستی کی ہر آواز پر تجاہل عارفانہ کا رویہ اپنائے ہوئے ہے اور وہ یہ تاثر دے رہا ہے کہ اب اسے پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور راہ ورسم کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ بھارت نے پاکستان کے بغیر ہی مغرب کی سمت وسط ایشیاء کی وسعتوں کی جانب تعلقات کی راہیں تلاش کر لی ہیں۔ پاکستان کو بائی پاس کرنے کے اس زعم میں بھارت اب پاکستان کے ساتھ تعلقات کے قیام میں سنجیدہ ہی نہیں رہا۔ کشمیر کی شناخت پر آخری شب خوں مارنے کے بعد تو بھارت اپنے تئیں مسئلہ کشمیر کے قصے کو ہی تمام سمجھ رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان کی حکومت شنگھائی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ بھیج کر نریندر مودی کی آمد کا مشتاق ہے۔ تو دوسری طرف بھارت مسلسل بیزار ی کا اظہار کررہا ہے۔
مودی کا دورہ ہو یا نہ ہو پاکستان کو کشمیر پر بھارت سے کوئی رعایت حاصل ہونے والی نہیں یہ پیغام بہت کھلے انداز میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے دے دیا۔ ایس جے شنکر سابق سفارت کار راجیو سکری کی کتاب Strategic conundrums; Reshaping India,s foreign policy (تزویراتی تنازعات، بھارت کی خارجہ پالیسی کی تشکیل نو) کی تقریب رونمائی کے دوران خطاب کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا پاکستان کے ساتھ مستقل بات چیت کا دور اب ختم ہو چکا ہے۔ کچھ اقدمات کے نتائج ہوتے ہیں اور جہاں تک جموں وکشمیر کا تعلق ہے میرے خیال میں آرٹیکل 370 سے یہ معاملہ ختم ہو گیا ہے۔ اس اقدا م کے بعد اب ہم پاکستان کے ساتھ کس قسم کے تعلقات پر غور کر سکتے ہیں؟ اور ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے؟ پاکستان کے ساتھ مستقل بات چیت کا دور اب ختم ہوچکا ہے۔ اب ہم ردعمل دیں گے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہیں گے۔ بھارتی وزیر خارجہ کے ان خیالات سے صاف لگتا ہے کہ بھارت ماضی قریب کے نواز واجپائی، مشرف من موہن جیسے مذاکرات میں اب کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ سیدھے لفظوں میں بھارت اب کشمیر پر کسی قسم کی بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان اور بھارت کے ستتر برس کشمیر پر ہی مذاکرات میں گزرے ہیں اور بھارت ہمہ وقت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے تیار بیٹھا ہو۔
پاکستان اور بھارت کے تمام مذاکرات مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے نہیں تھے بلکہ کشمیر کے محاذ اور مسئلے کو مینج کرنے کے گرد گھومتے رہے۔ شملہ معاہدہ اس مشق کا نقطہ ٔ عروج تھا جب پاکستان دولخت ہو کر بے حال تھا اور اسے اپنے نوے ہزار قیدیوں کی رہائی کا سب سے بڑا مسئلہ درپیش تھا۔ شملہ معاہدے کے وقت پاکستان کی اس مجبوری کا بھارت نے جم کر فائدہ اْٹھایا اور سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن کا نام دیا اور اس لکیر کو دوام دینے کے لیے کئی غیر تحریری ضمانتیں بھی حاصل کیں۔ اس کے بعد بھارت نے یہ موقف اپنا لیا کہ اب پاکستان مسئلہ کشمیر کا ذکر نہ تو عالمی فورم پر کرے گا اور نہ ہی دوطرفہ ملاقاتوں میں کیونکہ مسئلہ کشمیر اب حل ہوچکا ہے۔ پاکستان اس موقف کو تسلیم کرنے سے انکاری رہا اور ظاہر ہے چین بھی ایک علاقائی فریق کے طور پر کشمیر کی متنازع حیثیت کو تسلیم کرتا رہا۔ شملہ معاہدے کے بعد کشمیر میں بے چینی کے نئے انداز شروع ہوگئے جو ڈیڑھ دہائی بعد ایک مسلح مزاحمت کی شکل اختیار کرگئے۔ شملہ معاہدہ کم ازکم دو فریقوں کے درمیان تھا اگرچہ دونوں فریق اس کی اپنے انداز سے تشریح کر رہے تھے اس کے برعکس پانچ اگست کا فیصلہ تو بھارت کا یک طرفہ ہے جسے نہ کشمیری تسلیم کرتے ہیں نہ پاکستان اور نہ ہی چین۔ اس کے باوجود بھارت یہ سمجھ رہا ہے کہ اسے کشمیر پر پاکستان کے ساتھ اب مذاکرات کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ چین پانچ اگست کے بعد بھارت کے ساتھ گلوان وادی اور پنگانگ جھیل میں سینگ پھنسائے بیٹھا ہے۔ پاکستان اس کے ساتھ تعلقات کا گراف گرائے کھڑا ہے اور کشمیری آزادی پسندوں کو تو چھوڑیے خود بھارتی دھارے کے سیاست دان فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی پانچ اگست کو اپنی شناخت پر ڈاکا قرار دے رہے ہیں اور اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اپنے یوٹو پیا اور خیالی جنت میں رہنا تو اور بات ہے مگر زمینی حقائق کچھ اور کہانی سنارہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مشرف من موہن مذاکرات جن کو مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف اہم پیش رفت کہا جاتا تھا مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مینج کرنے کی کوشش تھے کیونکہ من موہن سنگھ جیسے دھیمے مزاج حکمران نے صاف لفظوں میں بتا دیا تھا کہ مذاکرات ہوں گے مگر سرحدوں کی تشکیل نو نہیں ہوگی۔ سرحدوں کی تشکیل نو نہ ہونے کا مطلب یہ تھا کہ جو علاقہ جس کے پاس ہے اس کا مالک ومختار بدستور وہی رہے گا۔ اس طرح بھارت کا کشمیر پر مستقل موقف یہی رہا ہے کہ یہ علاقہ اس کا اٹوٹ انگ ہے اور شملہ معاہدے میں اس کا مستقبل طے ہوگیا ہے مگر اس کے بعد کشمیر میں لاتعداد ایسے طوفان اْمڈ پڑے کہ جن سے نہ صرف یہ کہ شملہ معاہدے کے پرزے اْڑتے رہے بلکہ ان کے اثرات آج تک قائم ہیں۔ اس لیے بھارت کا حد سے بڑھا ہوا اعتماد اپنی طاقت کی بنیاد پر کھڑا نہیں بلکہ پاکستان کی معاشی کمزوری اور سیاسی انتشار کی بنیاد پر قائم ہے۔ ایک تخیلاتی طاقت کی بنیاد پر قائم یہ اعتماد کوئی نئی بات نہیں۔ مودی کی کرختگی اور واجپائی کی نرمی اور من موہن سنگھ کی ملائمیت میں یہی یوٹوپیائی اعتماد کچھ اس انداز سے جھلکتا رہا ہے کہ کشمیر ہمارا ہے آئیں اس سے آگے بات کریں۔ کشمیر کی سرحدیں تبدیل نہیں ہوں گی ہاں اس کے سوا ہر بات ہو سکتی ہے۔ ہری پربت پر ترنگا لہراتا رہے گا اس کے سوا مسئلہ کشمیر کا کوئی حل ہے تو بتائیں؟۔ آج بھی بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان کو یہی پیغام دیا کہ نریندر مودی کے لیے آپ کے بازو وا اور ہاتھ دراز رہیں یا آپ روٹھے اور ناراض رہیں کشمیر پر کوئی بامعنی بات چیت نہیں ہوگی۔ بھارت کے اس مستقل موقف کے آئینے میں پاکستان کے فیصلہ سازوں کو اپنی مستقبل کی حکمت عملی کو دیکھنا چاہیے۔ فی الحال بھارت انہیں جھیل ڈل کی سیر اور گلمرگ کی سیاحت کا پروانہ دینے کو بھی تیار نہیں جس کا سراب کم ازکم مشرف کے دور میں نیم دلانہ سی پیشکش کے طور پر دکھایا جا رہا تھا اور حیرت ہے بہت سے خوش گمان عناصر اس وقت بھی اسے مسئلہ کشمیر کا حل قراردے کر اپنا جی بہلا رہے تھے۔