ڈھاکا(مانیٹرنگ ڈیسک)بنگلادیش کی معزول وزیراعظم شیخ حسینہ واجد بھارت کے لیے سفارتی ’درد سر‘ بن گئیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کے باعث ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہونے والی سابق بنگلا دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد بھارت میں اپنے میزبانوں کے لیے سفارتی سردرد بن گئی ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق گزشتہ ماہ ان کے 15 سالہ آمرانہ دور کا اس وقت خاتمہ ہوا جب مظاہرین نے ڈھاکا میں ان کی رہائش گاہ کی طرف مارچ کیا۔ حکومت کے خاتمے کا باعث بننے والے مظاہروں کی قیادت کرنے والے بنگلا دیشی طلبہ نے شیخ حسینہ واجد کی سب سے بڑی حامی بھارتی حکومت سے ان کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے ان پر احتجاج کے دوران مظاہرین کے قتل کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔تاہم 76 سالہ حسینہ واجد کو واپس بھیجنا بھارت کے لیے جنوبی ایشیا میں اپنے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو کمزور کرنے کا خطرہ مول لینے کے مترادف ہے جہاں وہ چین کے ساتھ اثر و رسوخ کے لیے شدید جنگ لڑ رہا ہے۔کنفلکٹ ریزولوش تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے تھامس کین نے’ اے ایف پی’ کو بتایا کہ بھارت یقیناً حسینہ واجد کو بنگلا دیش واپس نہیں بھیجنا چاہے گا، ان کے واپس بھیجے جانے سے خطے میں موجود نئی دہلی سے قریبی تعلقات رکھنے والے ممالک کے رہنماؤں کو مثبت پیغام نہیں جائے گا۔نئی دہلی کے لیے گزشتہ سال اہمیت کے حامل سمجھے جانے والے مالدیپ کے صدارتی امیدوار کی شکست نے لگژری سیاحتی ملک کا جھکاؤ بیجنگ کی طرف کردیا تھا، جبکہ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹنے سے بھارت نے خطے میں اپنا سب سے قریبی اتحادی کھویا ہے۔ واضح رہے کہ بنگلا دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے دوران زیادتی کا شکار ہونے والے افراد بھارت کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہیں۔اس دشمنی کو بھڑکانے میں ہندو قوم پرست بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی میگا فون سفارتکاری نے اہم کردار ادا کیا ہے۔