پچاس کی دہائی میں سندھ کے ایک دور دراز گوٹھ ڈیپر میں قائم کیا جانے والا شاہ ولی اللہ اسکول و کالج منصورہ ھالا، ملک کا ایک منفرد تعلیمی، تدریسی، تربیتی درسگاہ تھا۔ اس ادارے کی تین امتیازی صفات جو اس کو دینی تعلیمی اداروں اور دنیوی یا مروجہ عصری تعلیمی اداروں سے ممتاز بناتی ہیں۔ ان میں سے ایک اس ادارے کا منفرد نصاب تعلیم، دوسری تدریس کے ساتھ ساتھ عملی، دینی تربیت اور تیسری مشنری پرخلوص ماہر اساتذہ۔ اس تعلیمی ادارے کے نصاب میں مروجہ نصاب کے مضامین یعنی ریاضی، سائنس، لغات، انگریزی، اردو، عربی، سندھی، معاشرتی علوم جو اسکول کالج میں پڑھائے جاتے ہیں ان کے ساتھ قرآن، حدیث، فقہ، منطق وکلام و فلسفہ اور وہ تمام علوم جو دینی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں، شامل تھے۔ منصورہ کالج کے عظیم اساتذہ میں پروفیسر سید سلیم، حیدرآباد کے سابق میئر سید وصی مظہر ندوی، شیخ الحدیث آغا محمد، حکیم امیرالدین، غلام سرور بھٹو، لیاقت علی بخاری، غلام محمد، راؤ محی الاسلام اور محمد انور سلیم شامل تھے۔ زیادہ تر اساتذہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ (افسوس کہ اس عظیم ادارے کو بھٹوحکومت نے ۱۹۸۳ میں قومی ملکیت کے نام پر تباہ کردیا)۔
منصورہ کا ہر استاد اپنے مضمون کا ماہر تھا۔ اساتذہ سب ہی عظیم تھے۔ آج کی اس تحریر میں اپنے عظیم مربی مشفق استاذ محمد انور سلیم کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ یہ تحریر ایک شاگرد کی طرف سے ایک استاذ کو محض خراج تحسین کے لیے نہیں بلکہ اس میں ٹیچرز کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ استاد کو کیسا ہونا چاہیے تو میرا مختصر جواب یہ ہوگا کہ اسے ’’محمد انور سلیم‘‘ ہونا چاہیے۔ اگر کوئی ٹیچر اپنے طالب علموں کی دنیا وآخرت سنوارنا چاہتا ہے اور ان کو اپنے لیے صدقہ جاریہ بنانا چاہتا ہے، اگر وہ اپنے شاگردوں کی دعاؤں اور یادوں میں رہنا چاہتا ہے اگر کوئی ٹیچر اپنے پڑھائے دروس کے ذریعے امر ہونا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ انور سلیم بنے۔ آج پانچ دہائیوں بعد بھی انور سلیم اپنے شاگردوں کے قلوب میں بستے ہیں تو یقینا وہ کوئی عام ٹیچر یا ماسٹر نہیں تھے جو کلاس روم کے پینتالیس منٹ کے لیے ٹیچر تھے اس کے بعد کچھ نہیں۔ استاد انور سلیم کی تدریسی خوبیاں۔ جو سبق صبح پڑھانا ہے ایک دن پہلے اس کی مکمل تیاری کرتے، کلاس میں ہر طالب علم پر انفرادی توجہ دیتے۔ طلبہ کوسکھانے کا جنون۔
استاد انور سلیم پڑھاتے ہوئے کوشش یہ کرتے کہ کوئی بچہ ایسا نہ ہو جو سبق سمجھ نہ سکے۔ وہ پڑھاتے نہیں تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بچوں کے ذہنوں میں سبق انڈیلتے تھے۔ استاد محمد انور سلیم دیکھنے میں ایک سادہ سی شخصیت ہیں۔ کوئی کروفر نہیں۔ عاجزی انکساری کے گم نام پیکر ہیں۔
استاذ انور سلیم نے منصورہ میں چار پانچ سال تعلیمی تدریسی خدمات انجام دیں۔ جیسا کہ بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ اسکول اور کالج تعلیمی کے ساتھ ساتھ تربیتی ادارہ بھی تھا۔ اس مقصد کے لیے بچوں کے لیے ہاسٹل (جسے تربیت گاہ کہا جاتا تھا) بھی بنائے گئے تھے۔ بچے اسکول کالج کی کلاسز کے بعد تربیت گاہ میں ہی رہتے تھے جہاں ان کو قرآن وسنت کی روشنی میں ان کو کارآمد، ذمہ دار مسلم شہری بننے کی تربیت دی جاتی تھی۔ استادمحترم اسی ہاسٹل کے وارڈن یا ناظم تربیت گاہ بھی رہے۔ اسکول کے بعد عام زندگی کے معاملات اور بچوں کے ربّ سے تعلق جوڑنے کی تربیت کے فرائض بھی ادا کرتے تھے اور بہت خوب ادا کرتے تھے۔ تربیت گاہ میں جہاں بچوں کے کھانے پینے کی ذمے داری وہ ادا کرتے تھے وہیں ان سے آداب، اخلاقیات و عبادات کی پابندی بھی کرواتے تھے۔ ہاسٹل میں چھے بلاک تھے۔ استاد محترم ہر بلاک کے برامدے میں روزمرہ کی دعاؤں میں سے ایک دعا ایک بورڈ پر لکھوا دیتے اور اسے یاد کرنے کے لیے ایک ہفتہ کا وقت دیتے۔ عموماً جمعرات کو مغرب کے بعد بچوں کو باری باری بلاتے اور دعا سنتے۔ ان دعاؤں میں رات کو سونے کی دعا، صبح جاگنے کی دعا، مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کی دعا، کھانا کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد کی دعا، گھر سے نکلنے کی دعا، سفر کی دعا، سواری پر بیٹھنے کی دعا حتیٰ کہ واش روم جانے اور بعد کی دعائیں شامل تھیں۔ الحمدللہ وہ سب دعائیں مجھے اب تک یاد ہیں۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً اٹھنے بیٹھنے کے آداب، لوگوں سے ملنے جلنے کے آداب، مسجد، محفل اور سفر کے آداب بھی سکھاتے تھے۔ استاد انور سلیم نے ہمیں عربی زبان و ادب اور فقہ بھی پڑھائی۔
میں انور صاحب کو ایک مثالی استاد اور کامیاب مربی سمجھتا ہوں۔ یہ چند سطور ایک شاگرد کی طرف سے اپنے مخلص مہربان استاد کے لیے خراج عقیدت وتحسین تو ہے ہی لیکن اس کا ایک بڑا مقصد آج کے ٹیچرز کے لیے ان کی تعلیمی، تدریسی، تربیتی زندگی کو نمونے کے طور پر اساتذہ کے سامنے لانا بھی ہے۔ اگر اس تحریر کو کوئی ٹیچر پڑھے تو یہ جان سکے کہ ٹیچنگ یا تدریس کیا ہوتی ہے۔ کلاس میں جان چھڑاؤ اندازمیں وقت گزار کر یہ جا وہ جا کے رویے سے ٹیچر اپنے لیے بچوں کے دل میں جگہ نہیں بنا سکتا۔ یقینا آپ پوچھنا چاہ رہے ہوں گے کہ استاد کو کیسا ہونا چاہیے۔ تو عرض ہے کہ استاد کو باپ جیسا ہونا چاہیے کہ پیار اور غصہ دونوں بچے کی بھلائی کے لیے ہوں۔ ڈانٹ ڈپٹ تو ہو مگر بچے کو کمتری اور ہتک محسوس نہ ہو۔ استاد کو پڑھاتے وقت ہر بچے پر انفرادی توجہ دینی چاہیے۔ جو کچھ پڑھانا ہے پڑھانے سے پہلے مکمل تیاری کر کے کلاس میں آنا چاہیے۔ استاد انور سلیم ان صفات سے بدرجہا متصف تھے۔ وہ تدریس کو ایک عظیم مقصد اور مشن کے طور پر لیتے تھے۔استاد محترم انور سلیم سندھ کے ایک چھوٹے شہر ماتلی میں رہتے ہیں۔ ان کے شاگرد صرف منصورہ میں نہیں ماتلی اور کراچی میں بھی ملیں گے۔ وہ آج بھی ہمت کر کے اپنے شاگردوں سے ملاقات کا سلسلہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ سب طلبہ ان کی عظیم تربیتی تعلیمی خدمات کے معترف ہیں۔
بدقسمتی ہے کہ تعلیم کو پیشہ اور کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ اصلاً تعلیم وتعلّم ایک مشن ہے وارث نسلوں کی اخلاقی اور سماجی یا معاشرتی تعمیر کا۔ استاد انسانیت کا معمار ہو تو ملت اور قوم بنتی ہے۔ جس ٹیچر کا ذہن تعمیر انسانیت کے جذبے سے خالی ہو وہ استاد نہیں ایک ہنر بیچنے والا میکینک ہے۔ شاید دنیا میں ہمیشہ ہی سے استاد بہت کم اور میکینک زیادہ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے استاد کا وہ محترم مقام باقی نہیں رہا جو ہونا چاہیے تھا۔ بچوں کو اچھا انسان اور ربّ کا سچا بندہ بنانے کے لیے انور سلیم جیسے اساتذہ کی ضرورت ہے۔