جاپان میں شفافیت اور جوابدہی کا کلچر… ایک جائزہ

440

جاپان میں شفافیت اور جوابدہی کی پختہ روایت ایک بار پھر اْس وقت نمایاں ہوئی جب حکمران جماعت کے سابق رکن، منابو ہوری نے انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات کے بعد ایوانِ نمائندگان سے استعفا دے دیا۔ کانسی کا تمغہ حاصل کرنے والے سابق اولمپین ہوری نے پارلیمنٹ میں اپنی نشست سے دستبرداری کا اس وقت اعلان کیا جب انہیں مالی اسکینڈل کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ مبصرین اسے جاپان میں قانون کی حکمرانی اور سیاسی سالمیت کے تحفظ کے لیے ملک کی مستقل کوششوں کے اعادے سے تعبیر کررہے ہیں۔

ہوری نے یہ انکشاف ہونے کے بعد استعفا دیا ہے کہ انہوں نے اپنے حلقے ہوکائیڈو میں اپنے حامیوں کو تعزیت کی مد میں رقم فراہم کی، جو کہ جاپان کے پبلک آفسز الیکشن لا کے تحت غیر قانونی ہے۔ اس قانون کے مطابق قانون سازوں کو صرف اس صورت میں تعزیت کے لیے مختص رقم دینے کی اجازت ہے جب وہ ذاتی طور پر کسی جنازے میں شریک ہوں۔ اس کے علاوہ، ہوری پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے جماعتی دھڑے سے حاصل ہونے والی تقریباً 21.96 ملین ین (152,300 امریکی ڈالر) کی رقم سے متعلق صحیح معلومات فراہم نہیں کی، جسے سیاسی فنڈز کنٹرول کے قانون کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ان الزامات کی روشنی میں ٹوکیو کے پراسیکیوٹرز ان کے خلاف باضابطہ فرد جرم کی تیاری کر رہے ہیں۔

جاپان میں ماضی میں بھی اس طرح کے معاملات کو غیر معمولی سطح پر شفاف طریقے سے حل کیا جاتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک قابل ذکر مثال 1976 کا ’’لاک ہیڈ رشوت اسکینڈل‘‘ بھی ہے، جب یہ انکشاف ہوا کہ جاپان کے متعدد اعلیٰ عہدیداروں، بشمول سابق وزیر اعظم کاکوئی تاناکا، پر یہ الزام لگا کہ انہوں نے امریکی ہوائی جہاز بنانے والی کمپنی لاک ہیڈ کارپوریشن سے رشوت لی تھی۔ جاپانی حکومت نے اس معاملے پر فوری اور فیصلہ کن ردعمل کا اظہار کیا؛ اس اسکینڈل میں ملوث عہدیداروں کے خلاف مقدمات چلائے گئے اور تاناکا کو گرفتار کر کے سزا سنائی گئی۔ یہ واقعہ جاپان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا اور اس نے ملک میں قیادت کے احتساب کے کلچر کو مزید مضبوط کیا۔

جاپان کی شفافیت کے عزم کی ایک اور مثال 1980 کی دہائی کے آخر میں آنے والے ’’ریکروٹ اسکینڈل‘‘ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کیس میں متعدد سیاست دانوں اور بیوروکریٹس پر ریکروٹ کمپنی سے حصص حاصل کرنے کا الزام تھا۔ اس اسکینڈل کے نتیجے میں بھی کئی استعفے سامنے آئے، جن میں وزیر اعظم نوبورو تاکیشیتا کا استعفا بھی شامل ہے۔ ان واقعات پر جاپانی عوام کے ردعمل نے اخلاقی حکمرانی اور سیاسی شفافیت کے مضبوط روایت کو دنیا کے سامنے ظاہر کیا۔

منابو ہوری کا حالیہ کیس انہی تاریخی مثالوں کی پیروی کرتا ہے۔ ان کا استعفا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت پر عوام کا اعتماد انتہائی اہمیت رکھتا ہے اور ایسی کوئی بھی کارروائی جو اس اعتماد کو نقصان پہنچاتی ہو، اسے فوری اور فیصلہ کن انداز میں حل ہونا چاہیے۔ ہوری کا ’’اپنے ووٹرز کو دھوکہ دینے‘‘ پر معذرت کرنا اور یہ اعتراف کرنا کہ ان کا اپنے عہدے سے دستبردار ہونا بہتر ہے، ایک عوامی عہدے کی جوابدہی کی اہمیت کے شعور کو ظاہر کرتا ہے۔

جاپان کا سیاسی نظام ایسے مضبوط قوانین کے فریم ورک سے عبارت ہے جو بدعنوانی کو روکنے اور انصاف کو فروغ دینے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ ایوان نمائندگان کا فوری ردعمل اور ٹوکیو کے پراسیکیوٹرز کی جانب سے جاری تحقیقات ان اصولوں کو برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کرتی ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں اعلیٰ عہدے داران بھی احتساب سے مستثنیٰ نہیں ہیں، جاپان شفافیت اور جوابدہی کے حوالے سے دنیا کے لیے ایک مثال قائم کرتا ہے۔

منابو ہوری کا استعفا صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ جاپان کی طویل عرصے سے جاری اْس روایت کا تسلسل ہے جس کے تحت کرپشن کے معاملات کو شفافیت اور جوابدہی کے ساتھ نمٹا جاتا ہے۔ ایسے اقدامات نہ صرف جاپان کے سیاسی نظام کی سالمیت کو مضبوط کرتے ہیں بلکہ اس کی جمہوری اقدار کی قوت کا بھی ثبوت دیتے ہیں۔ جاپان کے مستقبل کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ شفافیت اور جوابدہی پر مسلسل توجہ حکمرانی کا ایک اہم ستون رہے گا، جو عوام کے اپنے رہنماؤں اور اداروں پر اعتماد اور بھروسے کو یقینی بناتا ہے۔