غزہ میں جنگ بندی، یا فلسطینیوں کا خاتمہ؟

362

دسمبر 2023 سے یہی کہا جارہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فائر بندی اور حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے کے حوالے سے زمینی حالات حوصلہ افزا نہیں ہیں تاہم بعض امریکی ذمے داران باور کرا رہے ہیں کہ بات چیت کی فضا مثبت ہے۔ امریکی نیوز ویب سائٹ axios کے مطابق ایک امریکی ذمے دار نے ہفتے 31 اگست کو انکشاف کیا ہے کہ چند روز قبل دوحا میں شروع ہونے والی بات چیت تفصیلی اور تعمیری تھی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ رواں ہفتے کی ملاقاتوں میں تمام فریقوں کی نمائندگی تھی اور مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی ذمے دار کا کہنا ہے کہ ’’ہم اس وقت سمجھوتے پر عمل درآمد کی تفصیلات پر بحث کر رہے ہیں‘‘۔ لیکن اس دوران یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ اسرائیل غزہ کے بعد مشرقی یروشلم پر مکمل قبضے اور فلسطینیوں کے اخراج پر توجہ دیتے ہوئے وہاں قتل عام جیسی صورتحال پیدا کر رہا ہے۔ سینئر امریکی اور اسرائیلی ذمے داران نے بھی گزشتہ روز حوصلہ افزا اشارے دیے تھے اب یہ سب کیا ہے اس بارے میں کوئی بھی تفصیل نہیں بتا سکتا۔ یہی معلوم ہوا ہے کہ فریقین بالوسطہ بات چیت میں آگے بڑھے ہیں تاہم وہ ابھی تک مکمل معاہدے تک نہیں پہنچے۔ ذمے داران کے مطابق حماس نے اسرائیل کو اپنے پاس یرغمال اسرائیلیوں کی فہرست دے دی ہے جو آئندہ سمجھوتے کے پہلے مرحلے میں رہا ہو سکتے ہیں۔

اُدھر اسرائیلی حکومت نے فلاڈلفیا (صلاح الدین) راہ داری میں اپنے فوجیوں کی تعداد کم کرنے کا منصوبہ منظور کر لیا اور فوجیوں کی تعیناتی کے نقشوں کی تصدیق کر دی۔ تاہم وزیر دفاع یو آو گیلنٹ کی جانب سے اس کی سخت مخالفت کی جارہی ہے۔ یہ امر بات چیت میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے کیوں کہ حماس تنظیم غزہ کی پٹی میں اسرائیلی افواج کے رہنے کو بارہا مسترد کر چکی ہے یہ ٹھیک بھی ہے کہ ایک جانب دو ریاستی فارمولا اور دوسری جانب فلسطین میں اسرائیلی فوج کی جانب سے قتل عام یہ کیسے ممکن ہے۔

فلاڈلفیا راہ داری کے علاوہ رفح کی گزر گاہ اور نتساریم راہداری میں اسرائیلی فوجی موجودگی ان اہم مسائل میں سے ایک ہے جو دوحا اور قاہرہ فرانس میں کئی مہینوں کے مذاکرات کے بعد ابھی تک معلق ہیں۔ فلاڈلفیا راہ داری مصر کے ساتھ غزہ کی پٹی کی جنوبی سرحد پر پھیلی ہوئی 14.5 کلو میٹر طویل ایک تنگ پٹی ہے۔ اسرائیل اس راہداری پر اپنے قبضے کو صرف 11.5کلو میٹر تک محدود رکھنا چاہتا ہے۔ اس سے قبل ایک مصری عہدیدار تصدیق کر چکے ہیں کہ مذاکرات میں سہولت کاروں نے مذکورہ مقامات پر اسرائیلی فوج کی موجودگی کے متعدد متبادل پیش کیے ہیں تاہم اسرائیل اور حماس دونوں نے انہیں قبول نہیں کیا۔ اسی طرح معلق امور میں اْن گرفتار شدگان کی تعداد بھی شامل ہے جن کی رہائی کا حماس مطالبہ کر رہی ہے۔ اسرائیلی وفد کا مطالبہ ہے کہ ان افراد کی رہائی کی صورت میں انہیں غزہ سے باہر بھیجا جائے۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل مشرقی اور مغربی کنارے پر فلسطینیوں اور ان کو میڈیکل امداد پہنچانے والواں کے قافلے پر حملے کرر ہا ہے۔ الجزیرہ اردو کا کہنا ہے کہ امریکن نیئر یسٹ ریفیوجی ایڈ (انیرا) گروپ کے اماراتی اسپتال کی طرف جانے والے قافلے پر حملہ ’’بغیر کسی پیشگی انتباہ یا اطلاعات کے کیا گیا‘‘۔ انیرا گروپ نے کہا ہے کہ ایک اسرائیلی میزائل نے غزہ کی پٹی میں اماراتی اسپتال میں طبی سامان اور ایندھن لے جانے والے قافلے کو نشانہ بنایا، جس سے ایک مقامی ٹرانسپورٹ کمپنی کے متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔

حسب روایت اسرائیل نے فوری ثبوت کے بغیر دعویٰ کیا کہ اس نے بندوق برداروں کے قافلے پر قبضہ کرنے کے بعد فائرنگ کی۔ فلسطینی سرزمین کے لیے انیرا کی ڈائریکٹر سندرا رشید نے جمعہ کو بتایا کہ اسرائیل فوج نے ایک ٹرانسپورٹیشن کمپنی کے کئی ملازمین کو ہلاک کر دیا جسے امدادی گروپ رفح میں امارات ریڈ کریسنٹ اسپتال میں سامان لانے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ اگست 31 کی شام کو مقبوضہ علاقے میں اسرائیل کی سب سے بڑی فوجی کارروائی میں کم از کم 20 افراد شہید کیے گئے ہیں۔ اسرائیل کی فوج مقبوضہ مغربی کنارے کے جنین میں چھاپے مار رہی ہے اور اس کے حملے کے چوتھے دن محصور پناہ گزین کیمپ میں فلسطینیوں کے لیے امداد کی رسائی کو روک رہی ہے۔

الجزیرہ عربی نے ہفتے کے روز رپورٹ کیا کہ جنین پناہ گزین کیمپ کے مضافات میں درجنوں اسرائیلی فوجی تعینات تھے، اسرائیلی فوج کے بلڈوزر اور بکتر بند جہاز سے کارروائی جاری ہے۔ اسرائیلی فورسز نے کیمپ کے جبریات محلے میں مکانات کو دھماکے سے اڑا دیا۔ الجزیرہ کے مطابق ’’فلسطینی باشندے خوراک، پانی اور طبی عملے تک رسائی کی درخواست کرتے رہتے ہیں، جن میں سے سبھی کو پناہ گزین کیمپ میں داخلے سے روکا جا رہا ہے‘‘۔ مشرقی کنارے پر اسرائیلی حملے کو 31 اگست کو چوتھا دن تھا، اور پناہ گزین کیمپ کے رہائشیوں کو کسی بیرونی مدد تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ جنین میں فلسطینی مجاہدین اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان متعدد لڑائیوں کی اطلاع ملی ہے، ا سرائیلی چینل کی سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں علاقے میں بڑے پیمانے پر نقصان صاف نظر آرہا ہے۔ حماس کے مسلح ونگ نے کہا کہ اس کے ارکان مغربی کنارے کے شہر کے مغرب میں واقع گاؤں کفر دان میں اسرائیلی فوج کے ساتھ ’’مسلح جھڑپوں میں مصروف‘‘ ہیں۔

سوال یہ ہے کہ امریکی حکام اسرائیل حماس مذاکرات کوکامیاب کرانے کی سر توڑ کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا میں عرب اور مسلمان ووٹر کی تعداد کم لیکن فیصلہ کن ہو سکتی ہے اس لیے ’اگر کملا ہیرس مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں تو وہ آئیں اور کہیں کہ جب میں صدر بنوں گی تو میں غزہ اور مشرقی یروشلم پر مشتمل ایک فلسطینی سیاسی ریاست کی حمایت کروں گی اور جب دیگر ممالک ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے بات کریں گے تو میں اس کو ’’ویٹو‘‘ نہیں کروں گی۔ عرب اور مسلمان امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن انہیں کمیونٹی کے خدشات پر توجہ دینا ہوگی۔ عرب نیوز کے مطابق کئی برسوں سے عرب اور مسلمان امریکی روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی رہے ہیں لیکن کمیونٹی کے اندر غزہ میں امن کے حوالے سے بائیڈن اور ہیرس انتظامیہ کی ناکامی پر خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عرب اور مسلمان امریکی کملا ہیرس کی حمایت کرنا چاہتے ہیں لیکن اس وقت تک کوئی وعدہ نہیں کر سکتے جب تک وہ فلسطینی ریاست کے قیام اور غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے خاتمے کی حمایت میں ’واضح‘ بیان نہیں دیتیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ اسرائیل کی مکمل حمایت کرنے والے ریپبلکن کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر عرب اور مسلمان ووٹر کی جانب سے سخت تنقید ہو رہی ہے اور عرب اور مسلمان امریکی ووٹرز کے لیے اب ایک ہی آپشن کہ کملا ہیرس سے مطالبات منوا کر ان کو ووٹ دیں جن کی کامیابی یقینی ہو تی جارہی ہے۔ سروے کے مطابق 60 فی صد امریکی غزہ میں جنگ بندی چاہتے ہیں اور امریکی اسرائیلی پبلک افیئر کمیٹی کی وجہ سے صرف سات فی صد کانگریس کے اراکین جنگ بندی کے لیے تیار ہیں۔ لیکن امریکی عوام غزہ میں ہر صورت جنگ بندی چاہتی ہے اس پر ہی امریکا کے انتخابات میں فیصلے کی توقع کی جارہی ہے۔