اسٹریٹ پاور سے ٹکرانے کے بجائے حکومت معاشی تباہ کاری ختم کرے

176

ایسا محسوس ہو تاہے کہ پاکستان کی عوامی حمایت سے محروم حکمران عوامی طاقت کو نظر اندز کر رہے ہیںاور ان کو اس بات کا قطعی احسا س نہیں عوام کے معاشی مسائل کس قدر خطرناک ہو تے جارہے ہیں۔ معاشی مسائل ماضی قریب اور ماضی بعید میں بڑی حکومتوں کا تخت تختے میں تبدیل کر چکی ہیں ۔ اس حقیقت سے کسی کو انکا ر نہیں کہ اسٹیٹ کی پاور کا مقابلہ بہت مشکل ہو جاتاہے لیکن یہ تاریخ کی سچائی ہے کہ اسٹریٹ پاور کو مقابلہ کسی کی بس کی بات نہیں رہتی ہے اور ابھی چند دنوں قبل بنگلا دیش میں اس سچائی نے اپنے آپ بہت اچھی طرح ثابت کیا ہے جس پر ہمارے حکمرانوں کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے
لیکن اس کے بر عکس ملک گیر تاجروں کی شٹر ڈاؤن کامیاب ہڑتال کے باوجود حکومت نے تاجروں دباؤ میں نہ آنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان نے کہا کہ ٹیکس کا تمام بوجھ ایک طبقے پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا اور ٹیکس نیٹ بڑھا تو شرح کم کر دی جائے گی۔رانا احسان نے تاجروں کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو لگتا ہے ہم غلط کر رہے ہیں تو دوبارہ بیٹھا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ ٹیکسوں اور مہنگی بجلی کے خلاف تاجروں اور سیاسی جماعتوں کی اپیل پر کراچی سے خیبر تک شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی اور چھوٹے بڑے بازار اور دکانیں بند رہیں۔لیکن حکومتی ارکان اس کو مذاق تک محدود رکھنے کی کو شش کر رہے ہیں۔
ملک بھر شہرقائد میں تاجرتنظیموں کی جانب سے بجلی کے بھاری بلوں، بدترین مہنگائی اور تاجر دوست اسکیم کے خلاف بدھ کوکی جانے والی شٹرڈائون ہڑتال کامیاب قرار دی گئی ،شہر قائد میں بڑے تجارتی مراکز جامع کلاتھ مارکیٹ، جوڑیا بازار، میڈیسن مارکیٹ، بوتل گلی حیدری مارکیٹ، کورنگی مارکیٹ، بولٹن مارکیٹ اور اجناس مارکیٹ بند رہی جبکہ ہڑتال کے پیش نظر شہرقائد کے مختلف علاقوں میں اسکول بھی بند رہے،بعض علاقوں میں پیٹرول پمپس اور بڑے مارٹ بھی بند رہے ۔ ہڑتال کے باعث مختلف علاقوں میں ٹرانسپورٹ عام دنوں سے کم دکھائی دی ۔جماعت اسلامی،کی جانب سے تاجروں کی ہڑتال کی مکمل حمایت کی گئی تھی۔بدھ کو شہر بھر میں تمام بڑی اور چھوٹی مارکیٹوں میں سناٹے کا راج رہا اوردکانوں،گوداموں،پتھاروں پر پڑے ہوئے تالے حکومت کے خلاف احتجاج کا ثبت پیش کررہے تھے۔شیرشاہ اورمومن آباد میں تاجروں نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹائرنذرآتش کیے اور بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا۔
کراچی الیکٹرونکس ڈیلرز صدررضوان عرفان نے میڈیا سے بات چیت میں بتایاکہ کراچی کی 95 فیصد مارکیٹیں شٹرڈائون ہڑتال کی وجہ سے مکمل طور پر بند ہیں، ایف بی آر ظالمانہ ٹیکسز کا خاتمہ کرے ۔کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے کہاکہ حکومت ملک کی معیشت کی بہتری کے لئے کام کرے، اضافی ٹیکسز، بدترین مہنگائی، بھاری بلوں کے بعد ملک میں کاروباری سرگرمیاں معطل ہوگئی ہیں۔انہوں نے کہاکہ یہ ہڑتال حکومت کے لئے نوشتہ دیوار ہے ابھی بھی بیٹھیں اور مذاکرات کے ذریعے معیشت کو آگے بڑھائیں، بلاجواز ٹیکسز بدترین عوام اور تاجروں کو انارکی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ بزنس مین فورم کے مرکزی رہنما کیپٹن عبدالرشیدابڑو کا کہنا تھا کہ تاجر برادری نے ملک بھر میں مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال کرکے تاجردوست اسکیم ،،بجلی کے بھاری بلوں،آئی پی پیز اور مہنگائی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرادیا ہے اور اب حکومت کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ تاجر دوست ٹیکس اسکیم کا قانون واپس لے۔ آل پاکستان تاجراتحاد کے رہنما شرجیل گوپلانی نے کہا ہڑتال مکمل طور پر کامیاب رہی اور ثابت ہوگیا کہ تاجر برادری ایک پیج پر ہے،کہ اب گیندایف بی آر کے کورٹ میں ہے کہ وہ معاملات درست کرے۔آل کراچی ایل پی جی ڈسٹری بیوٹڑز الائنس کے صدر عمران فارقی نے کہا کہ احتجاج میں کراچی کی 1500سے زائد ایل پی جی کی دکانیں بند ہیں،حکومت جابرانہ طور سے تاجردوست اسکیم تاجروں پر مسلط کرنا چاہتی ہے لیکن اسے یہ احساس نہیں کہ اس اسکیم کو جبراً نافذ کرنے سے حالات کتنے خراب ہونگے اور ملکی معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا۔ صدراسمال انڈسٹریز محمود حامد نے کہا کہ آئی پی پیز کا آڈٹ کیا جائے،پاکستان کے تاجروں کوایوریج بلوں سے جان چھڑائی جائے، آج یہ پہلی ہڑتال نہیں ہے اگر مسائل حل نہ ہوئے تویہ سلسلہ چلتا رہیگا۔چئیرمین ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن عبدالرؤف ابراہیم نے کہا کہ آج یہ ثابت ہوگیا کہ کراچی چلتا ہے توملک چلتا ہے ،پاکستان کی تاریخ میں ایسی ہڑتال کبھی نہیں ہوئی،کپٹرا، اجناس،الیکٹرونکس مارکیٹوں سمیت تمام ہی کاروباری مراکز کیتاجروں نے احتجاجاً اپنی دکانیں بند کیں۔
ایف پی سی سی آء ی فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ،،بزنس مین فورم،کاٹی، سائٹ،فیڈرل بی ایریا،نارتھ کراچی، سائٹ سپرہائی وے سمیت ملک بھر کے صنعتکاروں اور تجارتی انجمنوں نے بھی تاجروں کی جانب سے 28 اگست کو کی جانے والی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کردیاہے۔فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدرعاطف اکرام شیخ نے 28 اگست کو تاجروں کی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم انجمن تاجران کی ہڑتال کی حمایت کرتے ہیں۔ عاطف اکرام نے کہا کہ ایف پی سی سی آئی تاجروں کے مسائل پر ان کے ساتھ ہے۔
ٹیکسز، بجلی کہ قیمت میں کمی، آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی اور کراچی میں بلوں پر پی ایچ ایل چارجز ختم کئے جائیں حکومت فوری طور پر تاجر برادری کے مطالبات منظور کرتے ہوئے ٹیکسسز کی بھرمار کم کرے، بجلی کی قیمتوں میں کمی کرتے ہوئے آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظر ثانی کرے تاجروں اور صنعتکاروں کو سہولیات فراہم کی جائیں، موجودہ معاشی بحران میں کاروبار کرنا انتہائی دشوار ہو چکا ہے، پاکستان کو اقتصادی طور پر مستحکم کرنے کیلئے تاجر و صنعتکار برادری کے جائز مطالبات منظور کئے جائیں۔ تاجروں کا نقطہ نظر کی مکمل حمایت کرتے ہیں، چھوٹے تاجرکاروباری برادری کا حصہ ہیں
نئیت بجٹ میں تاجروں، دکانداروں، صنعتکاروں اور عام عوام پر نئے لگائے گئے ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے اور بجلی نرخوں میں فوری کمی کے ساتھ ساتھ بہتر قومی مفاد میں آئی پی پیز کے معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کرکے کراچی شہر کو فوری ریلیف فراہم کیا جائے جو انرجی سکیورٹی ،انفراسٹرکچر اور امن و امان سے متعلق مسائل کے باوجود قومی خزانے میں اہم حصہ ڈالتا ہے۔تاجروںکا حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تاجروں ، چھوٹے تاجروں ، صنعتکاروں کے مسائل کو فوری حل کیا جائے ،آئی پی پیز سے معاہدوں کو ختم کیا جائے اور تاجروں اور دکانداروں ، صنعت کاروں اور عوام پر سے ناجائز لیکس ختم کیا جائے۔
ایک طرف عوام بجلی اور گیس کے بلز ادا کر تے کر ے بے حال ہو رہی ہے اور دوسری جانب پاکستان کی سب سے بڑی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسر (آئی پی پی) حب پاور کمپنی لمیٹڈ (حبکو) کا منافع 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال 24-2023 میں 21 فیصد سے زائد اضافے کے ساتھ 75.29 ارب روپے رہا۔پیر کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو بھیجے گئے نوٹس کے مطابق کمپنی نے گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 62 ارب روپے کا منافع کمایا۔مجموعی بنیادوں پر آئی پی پی کی صارفین کے ساتھ معاہدوں سے ہونے والی آمدنی مالی سال 24 میں 14 فیصد سے زائد اضافے کے ساتھ 130.5 ارب روپے تک پہنچ گئی جو گزشتہ سال 114.3 ارب روپے ریکارڈ کی گئی تھی۔مالی سال 24 میں کمپنی کی آمدنی کی لاگت ایک فیصد سے زیادہ بڑھ کر 62.2 ارب روپے ہوگئی جبکہ گزشتہ سال اس مدت میں یہ 61.5 ارب روپے تھی۔نتیجتا مالی سال 24میں حبکو کا مجموعی منافع 29 فیصد سے زائد اضافے کے ساتھ 68.3 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ مالی سال 24 میں منافع کا مارجن 48 فیصد رہا، جبکہ گزشتہ سال اس مدت میں یہ 46 فیصد تھا۔دریں اثنا کمپنی کی دیگر آمدنی میں معمولی کمی واقع ہوئی اور مالی سال 24 میں یہ 3.3 ارب روپے تک پہنچ گئی جبکہ گزشتہ سال اس مدت میں یہ 3.6 ارب روپے تھی۔
کمپنی کے دیگر آپریٹنگ اخراجات میں 2.45 ارب روپے کا اضافہ دیکھا گیا جو مالی سال 23 میں صرف 79 ملین روپے کے مقابلے میں 30 گنا زیادہ ہے۔حبکو کی مالی لاگت مالی سال 24 میں 38 فیصد اضافے کے ساتھ 26.7 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ یہ اضافہ اس وقت ہوا ہے جب سال کے دوران شرح سود میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔دوسری جانب حبکو نے مالی سال 24 میں ایسوسی ایٹس اور وینچرز سے منافع کی مد میں 49.4 ارب روپے کمائے جو سالانہ تقریبا 44 فیصد اضافہ ہے۔آئی پی پی نے مالی سال 24 میں 74 فیصد اضافے کے ساتھ 14.7 ارب روپے ٹیکس ادا کیے۔حبکو کی مجموعی طور پر بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 3,581 میگاواٹ ہے۔ آئی پی پی اپنے ماتحت اداروں کے ذریعے تیل و گیس، کان کنی اور صنعتی آپریشنز اور دیکھ بھال کی خدمات سمیت مختلف کاروباری شعبوں میں کام کرتی ہے۔ یہ صر ف ایک آئی پی پیز کاحال ہے ۔
ٓایک دوسر ی خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاروں اورکمپنیوں نے منافع کی مدمیں جولائی کے دوران 139.1ملین ڈالربیرون ممالک منتقل کئے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمارکے مطابق جولائی کے دوران پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاروں اورکمپنیوں نے اپنی سرمایہ کاری پرحاصل منافع کی مدمیں 139.1ملین ڈالرزرمبادلہ اپنے ممالک منتقل کئے۔جون میں سرمایہ کاروں نے اس ضمن میں 414.5ملین ڈالر اورگزشتہ سال جولائی میں 2.2ملین ڈالرمنتقل کئے تھے۔ا سٹیٹ بینک کے مطابق مالیاتی بزنس کے شعبہ میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاروں نے 16.1ملین ڈالر، بجلی 29.5ملین ڈالر، مواصلات 3.4ملین ڈالر، ٹرانسپورٹ 21.2ملین ڈالر، فوڈ6.6ملین ڈالر، پیٹرولیم ریفائننگ 0.1ملین ڈالر، کیمکلز13.5ملین ڈالر، مشروبات 3.6ملین ڈالر، آٹوموبائل 6ملین ڈالر اوردیگرشعبہ جات میں سرمایہ کاری کرنے والوں نے 39ملین ڈالرکازرمبادلہ اپنے ممالک منتقل کیا۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو ایک ڈالر کے آئی ایم ایف کی درجنوں شرائط پو ری کر رہا ہے اور اس کے برعکس اسٹیٹ بینک پاکستان کے اربوں ڈالر آئی پی پیز کو ادا کر رہا ہے۔