بے باکی کی سزا

310

ہر سال وفاقی بجٹ میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنا بجٹ مختص کرتی ہیں جس کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اشتہارات کے لیے ایک خطیر رقم رکھتی ہیں۔ مگر یہ سرکاری اشتہارات کس کو ملتے ہیں اور کیسے ملتے ہیں کیوں ملتے ہیں؟ یہ تمام سوالات بے معنی ہیں، اس کی وجہ صرف ایک ہی ہے یہ سب کچھ بغیر کسی میرٹ کے ہوتا ہے بس جس کا چہرہ پسند ہے اشتہار بھی اسی کو ہی ملے گا۔ وفاقی حکومت ہے تین سال سے جر نلسٹس پروٹیکشن بل پر کام کر رہی ہے اس بل کا ابتدائی مسودہ غالباً2004 میں سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے اپنی نگرانی میں تیار کیا تھا۔ اس کی نوک پلک کے لیے ماہرین کی رائے لی گئی تھی اور پھر اسے سینیٹ میں پیش کیا گیا، اس بل کے لیے بعد میں آنے والی ہر حکومت نے کچھ نہ کچھ پیش رفت کی لیکن ابھی تک کمیٹی، اخبار نویس کی تعریف وضع نہیں کر سکی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ منزل جلد ہی پا لی جائے۔ چلیے یہ منزل تو مل ہی جائے گی۔

پاکستان میں اخبارات کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ سرکاری اشتہارات ہیں لیکن یہ کیسے ملتے ہیں یہ ایک ایک لاکھ ملین ڈالر کا سوال ہے۔ ہاں البتہ اسے نہیں ملتے جو سرکار کی چھتری تلے نہیں آتا، جرأت، بے باکی اور قلم کی حرمت کے اس سفر میں جسارت نے جس مشکلات کا سامنا کیا ہر مشکل میں ہماری صدا یہی رہی کہ:کہ تم تیر آزمائو ہم جگر آزمائیںہمارا سینہ چھلنی چھلنی ہوا مگر ہم نے اپنا قلم چھلنی نہیں ہونے دیا۔ ایوب خان سے یحییٰ خان اور بھٹو صاحب اور ان کے بعد آنے والوں نے ہمارے ہاتھ کاٹنے کی کوشش کی مگر ہم نے حق و صداقت کا علم نیچے نہیں گرنے دیا۔ ہمارے قدم روکے کی کوشش کی گئی مگر ہم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ آج بھی یہی عہد ہے۔ تمہارے تیر ختم ہوجائیں گے ہمارا سینہ اللہ کے کرم اور فضل سے پورے قد کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

ہم اپنے ذہن سے لکھتے ہیں اور ہمارا قلم روشنائی پھیلاتا ہے ہمارا دعوی ہے کہ: جسارت پڑھیے… آپ اندھیروں سے روشنی میں آجائیں گے اور اجالا آپ کا ہم سفر ہوگا۔ ہم پاکستان کے حقیقی خادم ہیں اور عوام کے مظلوم طبقے کی آواز ہیں۔ ہمارا قلم پاکستان کے لیے، مسلح افواج کے لیے، عوام کے لیے اور اس ملک کے دہقان کے لیے ہے۔ ہر ظالم کا راستہ روکیں گے اور مظلوم کا ساتھ دیں گے۔ ہمارا آئین اور قانون کہتا ہے کہ ہر سرکاری ملازم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد وطن کے دفاع اور سالمیت کے امور ریاست کے راز فاش کیے بغیر وہ اپنے مشاہدات اور تجربات کو آزادی کے ساتھ بیان کرے مگر سرکاری ملازم کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے سرکاری منصب کو تعصب کے ساتھ استعمال کرے اور نا انصافی کرتا چلا جائے۔ جسارت اپنے صحافتی فرائض اور ذمے داریوں سے بخوبی آگاہ ہے لہٰذا ہم حقائق کے دائرے اور قانون کے چھاتے تلے رہ کر بد عنوان سرکاری ملازمین کا پردہ چاک کرتے رہیں گے۔

جسارت نے جب اپنا سفر شروع کیا تو اس وقت ملک میں ایک ایسی حکومت تھی جسے اپنی طاقت پر ناز تھا مگر یہ اس وقت رخصت ہوئی جب وہ اپنے دس سالہ ترقی کا جشن منارہی تھی۔ عوام کے سیلاب کی راہ میں آئی ہوئی یہ حکومت تنکے کی مانند بہتی ہوئی دیکھی ہے، اور ہمارا ایمان ہے رہے نام اللہ کا‘ جو سب سے بڑا ہے اور مالک کل کائنات ہے اگر کوئی سرکاری ملازم خود کو بڑا سمجھے گا ہم نہ خود کسی خبر کی شکل میں نہ ہمارے صفحات کسی کی کردار کشی کرتے ہیں اور نہ بت تراشتے ہیں لیکن ہم بت شکن ضرور ہیں اور یہ فریضہ انجام دیتے رہیں گے اور ہم نے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ حقائق کو نہایت احتیاط سے قلم بند کرنا ہے ہم نے اس صفحات پر جس کا گریبان چاک کیا اسے پھر سنبھالنے کا بھی موقع نہیں دیا، بھٹو صاحب گئے‘ اور یہ ہماری وجہ سے گئے تھے۔

ہم نے آج تک ہمت اور صبر کے ساتھ کام کیا ہے صبر اس قدر بیش قیمت ہے کہ اسے خریدنے کا ہر کسی میں یارا نہیں۔ صبر تو اتنا تلخ کہ اسے چکھنے کی ہر کسی کو تاب نہیں۔ یہ ہم ہی جانتے ہیں کہ اٹھائیس سال کیسے گزرے ہیں اور کن مشکلات سے گزر پر ہم نے بادبان اپنے معزز قاری کے ہاتھوں تک پہنچایا ہے۔ ہمیں بھی متعدد بار نہیں سو بار یہ پیش کش کی گئی کہ مالی مفاد چاہیے تو سقوں کی طرح صبح شام پانی کا چھڑکائو کرو، باراتیوں کی طرح چھوہارے لوٹنے کے لیے ہم بھی اس مکڑی کے جالے میں گرفتار ہوجائیں جس کی وجہ سے لوگ ’’مالی خوشحالی اور ترقی‘‘ پاتے ہیں یہ بھی کہا گیا کہ کہ ایسے بن جائو کہ گرو صاحب طبل بجائیں تو ہم حاضر ہوجائیں تاکہ ترقی اور مالی خوشحالی مل جائے مگر ہم کسب معاش میں کسی غیر قانونی حرکت کا پیوند نہیں لگانا چاہتے تھے سو اس لیے خاموش رہ کر نا انصافی کا مقابلہ کرنے کے لیے تپتی ہوئی ریت پر ننگے پائوں خراماں خراماں چل رہے ہیں۔ ہم پسند نہ پسند کا شکار ہو کر غیر معتبر رویوں کے پھلے ہوئے کیکر کے کانٹوں پر چل کر اپنے پائوں کی ایڑیاں خشک کرچکے ہیں مگرہم نے اپنی اناء قربان نہیں کی، ہم کسی تعصب ذدہ منصب کو نہیں مانتے، سچائی اور حق ہی ہماری خانقاہ ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی کریم ہے، وہی وہاب ہے، وہی عزیز اور وہی حفیظ ہے، وہی ستار ہے، وہی غفار ہے۔ وہی ہمارے کھیت کا راکھا ہے، اگر ہم پر اس کا کرم نہ ہوتا تو بعید نہیں تھا کہ سارے کھیت کو چڑیاں چگ جاتیں۔ ہم اسی کا شکر بجا لاتے ہیں کہ وہی معبود ہے اور وہی مسجود ہے۔