بلوچستان میں کس کی رٹ چل رہی ہے

331

26 اگست بروز پیر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جو قتل و غارت گری ہوئی اور جو معصوم اور بے گناہ لوگ مارے گئے ان کی تفصیلات تو اخبار میں آچکیں آگے چل کر ہم ضرورت کے مطابق اسے دہرا سکتے ہیں، فی الحال جو سوال ذہن میں ابھر رہا ہے وہ یہ ہے کہ بلوچستان میں اس وقت کس کی حکومت ہے یا کس کی رٹ چل رہی ہے۔ بظاہر تو صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے اور ان کے ساتھ کچھ علاقائی اور مقامی جماعتوں نے اتحاد کیا ہوا ہے، کیا پورے صوبے میں ان کی حکمرانی قائم و دائم نظر آتی ہے۔ افسوس ایسا بالکل نہیں لگتا کہ صوبائی حکومت کی معاملات پر گرفت مضبوط ہو۔ ایسے ہر واقع کے بعد بہت اچھے اور خوبصورت الفاظ پر مشتمل بیانات تو آجاتے ہیں جیسا کہ پیر کے اندوہناک واقع اور بالخصوص 23 معصوم مزدوروں کو شناخت کرکے قتل کرنے پر وزیر اعلیٰ کا یہ بیان بہت اچھا ہے کہ بی ایل اے نے پنجاب کے لوگوں کو نہیں مارا بلکہ یہ دہشت گردوں نے پاکستانیوں کو مارا ہے۔ خوبصورت الفاظ کے بیان کے بعد دوسری روایت یہ ہوتی ہے کہ وزیر اعلیٰ نے متعلقہ وزیر سے واقع کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ تیسری بات جو ہر ایسے واقع کے بات باختیار لوگوں کی طرف سے آتی ہے کہ آئندہ دہشت گردوں کو معصوم جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، گویا کہ یہ خونیں کھیل اجازت لے کر کھیلا گیا ہے۔ ایک بات پولیس کے ذمے داران کی طرف سے آتی ہے کہ واقع کا نوٹس لے لیا گیا ہے۔

اگر صوبائی حکومت کی رٹ نظر نہیں آتی تو کیا ہماری فوج کی یا انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رٹ چل رہی ہے۔ آئے دن جو ہمارے سپاہی اور افسران مارے جا رہے ہیں اس سے تو ایسا نہیں لگتا کہ پورے صوبے میں دہشت گردوں یا بلوچ لبریشن آرمی کی خاموش حکومت قائم ہے کہ وہ جب چاہتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں آزادی سے اور بڑے آرام سے اپنی کارروائیاں کرتے ہیں اور ٹارگٹس میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے یہ بات مان لی جائے کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کا بلوچستان کے معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں ہے تو پھر یہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ اتنا پیچیدہ کیوں ہوتا جارہا ہے اس میں تو ہماری عدالتیں بھی ہماری انتظامیہ بھی اور صوبائی حکومتیں بھی اور قبائل کے سردار بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف ہماری وفاقی حکومت کے پاس اپنی مخالف سیاسی جماعتوں پر لے دے کر ایک ہی الزام رہ جاتا ہے کہ ہم تو آپریشن کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ اس کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں ان دہشت گردوں سے مذاکرات کیے جائیں اور پھر ہوتا یہ ہے کہ سیکڑوں بے گناہ افراد کے قتل میں پھانسی کی سزا پانے والے مجرموں کو بھی رہا کرکے آبادی میں واپس لے آیا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ اب تک صوبے بلوچستان اور کے پی کے میں دس سے زائد بڑے آپریشنز ہو چکے ہیں اس سے کتنے مسئلے حل ہوئے ہیں۔ مسائل تو وہیں کے وہیں موجود ہیں دنیا میں ہر جگہ یہ ہوتا ہے کہ لڑائی اور گفتگو ساتھ چلتے ہیں۔

فلسطین کی مثال ہمارے سامنے ہے روزآنہ سو سے کم یا زائد فلسطینی اسرائیل کی سفاکیت کا نشانہ بن رہے ہیں وہ کون سے ظلم کی نوعیت ہے جو اسرائیل نے نہیں کیا ہو اور وہ کون سے ایسے خوفناک ہتھیار ہیں جو اسرائیلی فوج نے استعمال نہ کیے ہوں دو ہفتے قبل ایسے چھوٹے آگ لگانے والے بم سے حملہ کیا جس میں دو خاندانوں کے نہ صرف جسموں کے پرخچے اڑ گئے بلکہ ان کے جسم کے گوشت کوئلہ بن گئے اور صرف ہڈیاں باقی بچی تھیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی تھی کہ حماس کا ایک وفد مذاکرات کے لیے مصر پہنچ گیا، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اتنے سخت جانی نقصان کے باوجود حماس نے مذاکرات میں سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ امریکا نے جو شرائط پیش کی ہیں ہم اس کو من و عن تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ اسرائیل ہے جو خود پیچھے ہٹ رہا ہے اور الزام حماس پر لگا رہا ہے کہ مذاکرات میں حماس نے روڑے اٹکائے ہوئے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر ایرانی دھمکی نے اندرون خانہ مذاکرات کی رفتار کو کچھ تیز کردیا ہے، لیکن یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اسرائیل چاہتا کیا ہے اسپتالوں کے بعد اسرائیل نے غزہ کے بچے کھچے اسکولوں کی عمارات کو بھی بم سے اڑانے کا سلسلہ شروع کردیا ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کو اپنی اصل حیثیت میں واپس آنے کے لیے کم از کم بیس برس لگ جائیں گے لیکن میرا خیال ہے کہ مذاکرات کے بعد جس جوش و جذبے سے غزہ کے لوگ اپنے تباہ شدہ گھروں میں واپس آئیں گے تو بیس برس کیا بیس ماہ ہی میں غزہ میں چہل پہل شروع ہو جائے گی اور یہی اسرائیل کی شکست ہوگی یہی وجہ ہے کہ وہ غزہ کے انفرا اسٹرکچر کو نیست و نابود کردینا چاہتا ہے۔

اب ہم بلوچستان کی طرف آتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ مٹھی میں جس طرح ریت پھسلتی ہے اسی طرح یہ صوبہ بھی وفاق کے ہاتھوں سے سلپ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اس صوبے کی اتنی پیچیدہ سیاسی صورتحال ہے کہ اس پیچیدگی کو حل کرنے کا کوئی سرا نظر نہیں آتا ہماری مقتدر قوتیں، خفیہ ایجنسیاں، قبائلی سردار، صوبائی سیاستدان اور انتظامی افسران سب ایک دوسرے کو یا تو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں یا آپس میں اعتماد کے فقدان کی وجہ سے بلوچستان کے مسئلے پر کوئی مربوط لائحہ عمل کی تشکیل میں مشکلات کے پہاڑ درمیان میں حائل ہوجاتے ہیں۔ پیر والے دن پورے بلوچستان میں جو آگ اور خون کا کھیل کھیلا گیا ہے اس میں 14 فوجی سپاہی و افسران اور 40 عام شہری شہید ہوئے ہیں ہماری فورسز نے جو کارروائی کی اس میں 21 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ موسیٰ خیل میں بسوں اور ٹرکوں کو روک کر شناخت کے بعد 23 مسافروں کو فائرنگ کرکے قتل کردیا مقتولین کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے ہم تصور کرلیں کہ ہم بھی ان 23 بدقسمت لوگوں میں شامل ہیں۔ ان خوفناک لمحات میں ہماری کیا کیفیت ہوگی جبکہ یہ معلوم ہو کہ تھوڑی دیر میں جو فائرنگ کی آوازیں آرہی ہیں ایسی ہی ایک گولی ہمارے سر کو بھی پاش پاش کرنے والی ہے۔ کئی سال پہلے کراچی ائر پورٹ کے قریب ایک جہاز حادثے کا شکار ہوا تھا تو اس میں زندہ بچ جانے والے پنجاب بینک کے سربراہ نے ان آخری لمحات کی دل دہلا دینے والی عکاسی کی تھی کہ بچے خوف سے رو رہے ہیں کچھ لوگ باآواز بلند قرآن مجید کی تلاوت کررہے ہیں کچھ کلمے کا ورد کررہے ہیں۔ چلیے وہ تو ایک قدرتی حادثہ ہے یہاں تو اپنے ہی اپنوں کو کسی وقتی اشتعال کے تحت نہیں بلکہ ایک منصوبے کے تحت مار رہے ہیں۔

بلوچستان میں کئی مسائل ہیں پہلے نمبر پر تو خود بی ایل اے یعنی بلوچ لبریشن آرمی ایک اہم مسئلہ ہے ان کی پشت پناہی کرنے والے اندرونی سہولت کار، بیرونی سرپرست جس میں امریکا اور بھارت کی خفیہ ایجنسیاں ہوسکتی ہیں ان کی ٹھیک ٹھیک اور درست نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ گمشدہ افراد کی بازیابی کا ہے جتنا اس اہم اشو کو حل کرنے کی کوششیں تیز ہورہی ہیں اتناہی یہ مسئلہ پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ اسی طرح کہ اور بھی مسائل ہیں۔

آخر میں ہم یہ تجویز دینا چاہیں گے کہ جناب آصف زرداری آگے بڑھیں بلوچستان کے مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کریں اس کی کئی وجوہات ہیں ہے ایک تو یہ کہ آپ ملک کے آئینی سربراہ ہیں، دوسرے یہ کہ صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، تیسری بات یہ کہ آپ کے اسٹیبلشمنٹ سے بھی اچھے تعلقات ہیں، چوتھی اہم بات یہ کہ صوبے کے قبائلی سرداروں سے بھی ذاتی تعلقات ہیں، پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ اپنی اتحادی جماعتوں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی آصف زرداری کے خوشگوار تعلقات ہیں اور مولانا فضل الرحمن تو ان کے پرانے دوست ہیں کوئی ایک دو پارٹیاں بائیکاٹ کریں تو اس کی پروا نہ کریں وہ خود عوام میں اپنی سیاسی پوزیشن کو خطرے میں ڈالنے کا سبب بن جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے اس صوبے کے سلگتے مسائل پر سنجیدگی سے سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی مضبوط لائحہ عمل تشکیل دے کر اٹھیں۔