جماعت اسلامی کی تاریخی ہڑتال

387

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر 28 اگست کو بجلی کے بلوں میں ہولناک اضافوں، تاجروں اور سرکاری ملازمین پر عائد کیے گئے ناجائز ٹیکسز، آئی پی پیز کی لوٹ مار اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی کال دی۔ عوام جو پہلے ہی مہنگائی اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ان کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے لوگ مجبور ہوکر اپنے بیوی بچوں سمیت خودکشیاں کررہے ہیں۔ ایسے حالات میں جماعت اسلامی کی ہڑتال عوام کے دلوں کی آواز بن گئی۔ تاجر برادری نے بھی جماعت اسلامی کی ہڑتال کا خوب ساتھ دیا اور کراچی سے لیکر چترال تک ملک گیر شٹر ڈاؤن کامیاب ہڑتال کی گئی۔ اس سلسلے میں ٹرانسپورٹ، صنعتیں اور نجی ادارے بھی بند رہے۔ حکومت کی جانب سے تاجر برادری پر بڑا دباؤ تھا لیکن حکومت کی دھونس دباؤ اور دھمکی کسی کام نہ آسکی۔ عوام کے صبر کا پیمانہ جو کہ لبریز ہوچکا ہے اور وہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، مہنگائی اور ناجائز ٹیکسوں سے شدید پریشان تھے وہ جماعت اسلامی کی ہڑتال پر لبیک کہتے ہوئے اسے کامیاب بنانے کے لیے متحرک ہوگئے۔

جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن جو کہ اس سے قبل کراچی میں اپنی امارات کے دوران حق دو کراچی مہم کے سلسلے میں بڑے پرجوش انداز میں منظم طریقے سے عوامی تحریک چلا چکے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہونے کے بعد انہوں نے اسی طرز پر ’’حق دو عوام کو‘‘ تحریک شروع کی اس سلسلے میں راولپنڈی مری روڈ پر 14 دن کا بجلی کے بلوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، مہنگائی اور آئی پی پیز کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف بھرپور طریقے سے دھرنا دیا اور حکومت کی جانب سے مہنگائی کے خاتمے، آئی پی پیز کی کمپنیوں سے معاہدے ختم کرنے کی یقین دہانیوں پر یہ دھرنا معطل کیا گیا اور جماعت اسلامی کی جانب سے معاہدہ کی پاسداری نہ کرنے پر اگلے مرحلے میں ڈی چوک پر دھرنا دیے جانے کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس دھرنا میں پورے پاکستان سے لوگ شریک ہوئے لیکن صوبہ پنجاب کی حاضری قابل دید تھی اور پنجاب کے کارکنان کا جوش وخروش بھی قابل دید تھا۔ اس دھرنے نے پورے ملک میں ایک ہلچل سی مچا دی تھی اور لوگوں نے جماعت اسلامی سے بڑی توقعات وابستہ کر لی تھی۔ پہلی مرتبہ پورا پنجاب جماعت اسلامی کی تحریک کی پشت پر کھڑا ہوگیا تھا جس سے جماعت اسلامی کے قائدین و کارکنان کو بہت تقویت ملی۔ حافظ نعیم الرحمن نے راولپنڈی دھرنا میں جس طرح آئی پی پیز کی لوٹ مارکے قوم کو آگاہ کیا اور ان کمپنیوں کے مالکان کے چہرے بے نقاب کیے اس سے اسٹیبلشمنٹ سمیت ملک کی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو برہنہ کردیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 1994 سے اب تک آئی پی پیز کو کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں 15 ہزار ارب روپے ادا کیے جاچکے ہیں اور ٹیکس ومدات میں رعایت کے ذریعے 1200 ارب کا انہیں فائدہ دیا گیا ہے۔

جماعت اسلامی کی اس تاریخ ساز ہڑتال نے بلاشبہ حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ حکومت نے اگر جماعت اسلامی کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور آئی پی پیز کمپنیوں کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کو ختم نہیں کیا گیا۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی نہ کی گئی، سرکاری ملازمین اور تاجروں پر عائد نئے ظالمانہ ٹیکس ختم نہ کیے گئے اور مہنگائی کا خاتمہ نہ کیا گیا تو جماعت اسلامی حکومت کو گھر بھیجنے کی تحریک شروع کر سکتی ہے۔ حکومت نے عوام کو ریلیف فراہم نہیں کیا تو ملک کے حالات کشیدگی کی جانب جا سکتے ہیں۔ بلاشبہ عوام کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا ہے۔ عوام بجلی کے بلوں اور تاجر اور سرکاری ملازمین نئے ٹیکس سے سخت عاجز آ چکے ہیں اور ان کی قوت برداشت سب ختم ہوچکی ہے۔ جماعت اسلامی کی کامیاب ہڑتال حکمرانوں کے لیے نوشتہ دیوار ہے اور یہ ہڑتال ایک عوامی ریفرنڈم ثابت ہوئی ہے گزشتہ 25سال میں اس طرح بھرپور اور رضاکارانہ ہڑتال دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے اور ان سے عوام نے بڑی توقعات وابستہ کر لی ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن پاکستان کی مظلوم اور محکوم عوام کے لیے ایک نجات دہندہ بن چکے ہیں۔

28 اگست کی کامیاب اور تاریخی ہڑتال حکمرانوں کے لیے ابھی ایک ٹریلر ہے ابھی تو آغاز ہے آگے آگے دیکھو ہوتا کیا ہے۔ حکمرانوں نے اگر ہوا کے رخ کو نہیں پہچانا تو ان کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی اور انہیں بنگلا دیش کی حسینہ واجد کی طرح بھاگنے کا موقع بھی نہیں مل سکے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کے ابتر معاشی بحران کی وجہ سے اپنی عیاشیوں اور لوٹ مار کو ختم کرے۔ حکومت نے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا ہے۔ اشرافیہ کے لیے ہی ساری مراعات جاری ہیں۔ مفت پٹرول،

مفت بجلی، مفت ہوائی جہاز کے ٹکٹ، مفت رہائش، موبائل کالز، بیرون ملک سفر ودیگر عیاشیاں عوام کے ٹیکسوں کی مد میں کی جارہی ہیں۔ دوسری جانب حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کو نج کاری کی بھینٹ چڑھا کر گیارہ ہزار سے زائد ملازمین کو بے روزگاری اور بھوک کی دلدل میں دھکیل دیا ہے جس سے محنت کشوں اضطراب اور بے چینی پھیلی رہی ہے۔ ہزاروں ملازمین چار دن سے ڈی چوک پر دھرنا دیے ہوئے ہیں لیکن بے حس حکمرانوں کو جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ محنت کش ایک بڑی طاقت اور قوت ہیں۔ دنیا بھر میں بڑے بڑے انقلاب طلبہ اور محنت کشوں کے ذریعے ہی آتے ہیں۔ بنگلا دیش میں حالیہ تبدیلی اور انقلاب کے پیچھے طلبہ تنظیم کا ہی ہاتھ تھا پاکستان میں اگر محنت کش طبقہ کو اپنی طاقت اور قوت کا علم ہو جائے اور تمام مزدور فیڈریشنز متحد ہوجائیں تو پاکستان میں تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ حافظ نعیم الرحمن یوٹیلیٹی اسٹورز کے محنت کشوں کی آواز بنے اور یوٹیلیٹی اسٹورز کی بندش اور قومی اداروں کی نج کاری کے خلاف فیصلہ کن تحریک چلائی جائے اور پاکستان کے تمام محنت کش لیفٹ اور رائٹ کے تعصبات سے بالائے طاق ہوکر پاکستان کو بچانے کی جدوجہد میں شریک ہو جائیں ورنہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے بعد پی آئی اے، ریلوے، واپڈا کی کمپنیوں کی نج کاری قریب آرہی ہے محنت کشوں کا اتحاد اور حافظ نعیم الرحمن جیسی جرأت مند قیادت ہی نج کاری کی اس تلوار کا راستہ روک سکتی ہے۔