ایوب خان کی فاش غلطیاں اور قابل ذکر خوبیاں

381

بدھ 21 اگست کے ایک اخبار میں معروف صحافی مظہر عباس کا ایک کالم بہ عنوان ’’اگر ایوب خان کا کورٹ مارشل ہو جاتا‘‘ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’فیلڈ مارشل ایوب خان کو آرمی چیف ہوتے ہوئے وزیر دفاع بنانا بنیادی غلطی تھی جس نے فوج کے سیاسی کردار کا راستہ کھول دیا‘‘۔ گو کہ اس ایک جملے سے مرحوم حمید گل نے اپنے لیے بھی ایک بھونڈا سا جواز ڈھونڈلیا جو بعد میں انہوں نے ملکی سیاست میں حصہ لے کر انجام دیا۔ اس ملک میں جو بھی حکمران آئے ان کے دور میں کچھ اچھے کام بھی ہوئے جبکہ کچھ ایسی فاش غلطیاں بھی ہوئیں جس نے ملک کے سیاسی اور جغرافیائی مستقبل پر المناک اثرات مرتب کیے۔ جیسے کہ ایک مصرعہ ہے کہ ’’لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی‘‘ ہمارے ہر حکمران نے اپنے دور میں ایسے اچھے کام بھی کیے جس کے مثبت اثرات سے قوم ابھی تک مستفیض ہورہی ہے۔ اور اسی طرح ایسی فاش غلطیاں بھی ان سے شعوری یا غیر شعوری طور پر سرزد ہوئیں جن کی سزا قوم ابھی تک بھگت رہی ہے۔ ہم چونکہ یہاں ایوب دور حکومت کی بات کررہے ہیں لہٰذا ہم اپنے نکات ان ہی کے ادوار میں ہونے والے اقدامات کی طرف مرکوز رکھیں گے۔

ایوب خان کے دور حکومت سے پہلے ملک میں دو اچھے فیصلے یا بہتر اقدام کیے گئے جس سے ملک کے سیاسی اور معاشی مستقبل پر خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ 1951 میں لیاقت علی خان کے دور میں ایک فوجی سازش ہوئی جس میں گیارہ فوجی افسران اور چار سویلین کو لمبی سزائیں ہوئیں اس سازش کے سرغنہ میجر جنرل اکبر تھے۔ چونکہ شروع کے ادوار میں ملکی سیاست پر سیاستدانوں کی گرفت مضبوط تھی اس لیے یہ ایک اچھا کام ہوا اس سے فوج کو ایک سبق تو ملا کہ فوج کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے لیکن بعد کے واقعات بتاتے ہیں کہ ایسا کوئی سبق لیا نہیں گیا۔ اسی دور میں ایک دوسرا اچھا اور دور رس فیصلہ ملک فیروز خان نون کے زمانے میں یو اے ای سے گواردر سی پورٹ کی خریداری۔ اس میں فیروز خان کی اہلیہ بیگم وقار النساء نون نے زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کیا اور تیس لاکھ پونڈ میں اس کا سودا ہوا اور اس کی زیادہ تر ادائیگی پرنس کریم آغا خان نے کی آج پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ اس گوادر پورٹ سے ملک کا خوشگوار معاشی مستقبل وابستہ ہے۔ 1956 کا دستور تیار ہوچکا تھا اور اس کے تحت اکتوبر 1958 میں ملک میں عام انتخابات ہونا تھے لیکن میجر جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے آئین توڑ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اگر راولپنڈی سازش کیس کی طرح ان دونوں پر بھی آئین توڑنے اور مارشل لا لگانے پر بغاوت کا مقدمہ قائم کرکے سزا کے عمل سے گزارا جاتا تو ملک میں دوسرا آئین بنانے کی ضرورت پڑتی نہ آئندہ کوئی مارشل لا لگاتا اور نہ مشرقی پاکستان الگ ہوتا۔ یہ ایوب خان کا وہ بلنڈر تھا جس نے ملک کا سیاسی کلچر ہی تبدیل کردیا۔ طویل عرصے تک اقتدار پر رہنے کے لیے ایوب خان نے ایبڈو کے تحت ہزاروں سیاست دانوں کو سیاست سے نااہل قرار دے دیا۔ یہ دوسری بڑی غلطی تھی کہ اپنے مخالف آوازوں پر پابندی لگادی دس سال تک پورے ملک میں ایک گھٹن اور جبر کا ماحول رہا یہی وجہ تھی کہ بہترین اقتصادی ترقی کے باوجود جب لوگوں کو تھوڑی سیاسی آزادی ملی کراچی میں ایوب خان کے خلاف اصغر خان کے جلوس میں دس لاکھ سے زائد افراد تھے ایک فرد تو اپنے بھرپور جوش و جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزار قائد کے وسیع عریض گنبد کے بالکل اوپر (پتا نہیں کیسے) پہنچ گیا ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں اس کی خصوصی تصویر شائع ہوئی تھی۔ میں کالج میں تھا ہمارے انگلش کے پروفیسر نے اس جلوس اور شرکاء کے جوش وخروش پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب آپ جبر کے تحت اپنی مخالف آوازوں کو دبانے کی کوشش کریں گے تو پھر اسی طرح کے بپھرے ہوئے جذبات سے لبریز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

ایوب خان سے پہلی بڑی غلطی 56 کا دستور توڑ کر مارشل لا لگانا، دوسری غلطی پراوڈا اور ایبڈو جیسے بدنام زمانہ قوانین کے ذریعے اپنے مخالفین سے سیاست کے میدان کو صاف کرنا، تیسری بڑی غلطی یہ کی کہ ملک کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا حالانکہ قائد اعظم نے پاکستان بننے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ کراچی پاکستان کا مرکز ہوگا۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے جو لوگ ہجرت کرکے آئے ان کی اکثریت نے کراچی کی طرف رخ کیا اور ایک طرح سے ملک کا نظم و نسق اردو بولنے والوں نے سنبھالا اس تبدیلی سے ان کو دھچکا لگا تو دوسری طرف مشرقی پاکستان کے لوگوں نے بھی اسے قبول نہیں کیا وہ سمندری راستے سے کراچی آتے اور یہاں سے اپنے کام کراکے واپس چلے جاتے اب انہیں کراچی سے اسلام آباد جانا پڑے گا، اس فیصلے سے جہاں بجٹ پر بے پناہ بوجھ پڑا وہیں ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہنوں پر منفی اثرات پڑے۔

ایوب خان سے چوتھی بڑی غلطی یہ ہوئی کہ پاکستانی عوام کو بے شعور سمجھتے ہوئے کہ یہ ووٹ دینے کے اہل نہیں ہیں حالانکہ یہی برصغیر کے مسلمان تھے جنہوں نے بیلٹ کے ذریعے یہ ملک حاصل کیا تھا ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا نظام قائم کیا پورے ملک میں 80 ہزار بی ڈی حلقے قائم کیے گئے اور کہا گیا کہ عوام اپنے ان نمائندوں کا انتخاب کریں گے اور پھر یہی نمائندے ملک کے صدر کا انتخاب کریں گے یعنی انہوں نے ون مین ون ووٹ کا تصور ختم کردیا۔

ایوب خان سے پانچویں بڑی غلطی 56 کے دستور کی جگہ اپنا 1962 کا دستور نافذ کرنا تھا اس کے خلاف زبردست تحریک اٹھی اور یہ شاعروں اور دانشوروں کی طرف سے اٹھائی ہوئی تحریک تھی جو عوام کی زبان بن گئی بچہ بچہ گلیوں میں کہتا پھرتا کہ: ایسے دستور کو، ایسے منشور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا۔ اس دستور میں کئی قابل اعتراض باتیں تھیں جنہیں عوام نے تسلیم نہیں کیا، جیسے اسلامک ری پبلک آف پاکستان کی جگہ جمہوری ری پبلک آف پاکستان نام رکھ دیا گیا۔ عائلی قوانین پر علماء کو شدید اعتراضات تھے۔

1962 میں انڈیا اور چین کی جنگ چھڑگئی، چین کے صدر چوائن لائن نے پاکستان کو پیغام بھیجا کہ موقع اچھا ہے پاکستان مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج داخل کرکے کشمیر پر قبضہ کرلے امریکن سی آئی اے کو اس کی خبر لگ گئی ادھر بھارت نے بھی امریکا سے رابطہ کیا امریکا نے شاید صدر ایوب کو یہ یقین دلایا کہ وہ کشمیر میں فوج داخل نہ کریں اس جنگ کے بعد یہ مسئلہ یو این او کی قرارداوں کی ر وشنی میں حل کرلیا جائے گا یہ ایوب خان کی چھٹی بڑی غلطی یا بزدلی تھی کہ انہوں نے امریکا کے کہنے پر کشمیر حاصل کرنے کا یہ سنہری موقع گنوا دیا۔ (جاری ہے)