کچے کے حکمران اور پکے کے ڈاکو

354

صاحبو! موت زندگی کا اختتام ہے۔ ہمارے حکمران ہر روز اپنی نئے دن کا آغاز موت کے استقبال سے اس طرح کرتے ہیں جدھر دیکھیں اعلیٰ حکومتی عہدیدار جنازوں کی نمازیں پڑھتے اور کاندھے دیتے نظر آتے ہیں۔ پختون خوا اور بلوچستان کے پھٹتے آتش فشاں ہوں یا کچے کے ڈاکو قومی فورسز کا نقصان کچھ زیادہ ہی ہورہا ہے۔ آئے روز کی تدفین اور شورشوں سے پاکستان کا تاثر ایک ایسے سامراجی ملک کا بن رہا ہے جس کی اکائیاں اس سے برسر پیکار ہوں اور ریاستی عسکری قوتیں ان کے مقابلے میں پسپائی کا شکار ہوں۔ چند روز پہلے ماچھکہ، رحیم یار خان میں بارہ پولیس والوں کی شہادت معمولی بات نہیںکہ تدفین کی رسوم کے رسمی دکھائوں سے واقعہ کی المناکی اور ہو لناکی پر قابوپا لیا جائے اور شورش کے تاثر کا قلع قمع کردیا جائے۔

کچے کے ڈاکوئوں کے نام سے جو ہو لناکی، جنگجوئی اور ظلم کے واقعات وابستہ ہیں وہ عالمگیر جنگ کے کسی میدان کارزار کی یاد تازہ کردیتے ہیں حالانکہ یہ علاقے ہماری دسترس سے دور نہیں۔ جنوبی پنجاب تک پہنچتے پہنچتے دریائے سندھ کی وسعت ایک بڑے دریا سے کئی ندی نالوںکی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ جن کے درمیان میں کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے نمودار ہو جاتے ہیں۔ ریتیلی زمین اور سڑکوں کی عدم موجودگی جن تک رسائی بہت مشکل بنادیتی ہے۔ یہ ساحلی پٹی جنوبی پنجاب، بلوچستان، سندھ، خیبر پختون خوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے سنگم پر، پاکستان کے تین صوبوں کے باڈر پر واقع ہے۔ کچے کا علاقہ لاکھوں ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے۔ پنجاب کے جنوبی علاقوں رحیم یار خان، صادق آباد اور راجن پور جب کہ سندھ کے شمالی شہروں شکار پور، گھوٹکی اور کشمورکے دریائے سندھ کے اطراف کے علاقے ان ڈاکوئوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ اسی علاقے میں بلوچستان کی حدود بھی واقع ہیں۔ انگریز دور سے دریاؤں کے بہاؤں پر لگائے گئے حفاظتی بندوں کے اندر واقع علاقوں کو ’کچے کا علاقہ‘ کے طور پرجانا جاتا تھا۔ یہ وہ علاقے ہیں، جہاں دریاؤں میں سطح آب بلند ہونے پر پانی باہر آتا ہے اور مقامی لوگ یہاں موسمی فصلیں اگاتے ہیں۔ کئی لاکھ ایکڑ (300-400 کلو میٹرز پر پھیلا ہوئے) رقبے پر محکمہ جنگلات اور ریونیو کی ملکیتیں ہیں۔

دریائے سندھ کے دونوں اطراف موجود کچے کے علاقوں میں 80 کی دہائی سے خطرناک ڈاکوؤں کا راج ہے۔ پنجاب کے دریائے راوی اور چناب کے اطراف واقع کچے کے علاقوں کو بھی جرائم پیشہ افراد چھپنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن سنگین وارداتوں میں ملوث منظم ڈاکو، جو اشتہاری بھی ہیں، دریائے سندھ کے اطراف کچے میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں وقفے وقفے سے آپریشن ہوتے رہے ہیں لیکن ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔ ڈیڑھ سال قبل سندھ اور پنجاب پولیس نے ان علاقوں میں مشترکہ آپریشن شروع کیا، جو اس وقت بھی جاری ہے۔ نوآبادیاتی دور سے یہ علاقے ڈاکوئوں اور آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجوئوں کے ٹھکانے کے قائم مقام رہے ہیں جہاں تک قانون اور فورسز کی پہنچ ہر دور میں مشکل رہی ہے۔ سندھ کو پنجاب اور بلوچستان سے جوڑتے سرحدی راستوں، قومی شاہراہوں اور ذیلی سڑکوں کو کچے کے ڈاکو اپنا دائرہ کار سمجھتے ہیں۔

رحیم یار خان اور راجن پور کے درمیان کا وہ علاقہ جو آج کل زبانوں پر رواں ہے وہ بمشکل بیس تیس کلو میٹر کا علاقہ ہے جہاں دریائے سندھ کا پانی سارا سال مو جود رہتا ہے۔ پلوں کی عدم موجودگی ندی نالوں کے درمیان موجود جزیروں پر ڈاکوئوں کی پناہ گاہوں تک پہنچنا ایک مشکل کام بنادیتی ہے۔ کہیں جنگل، کہیں پانی اور کہیں خشکی اس علاقے کو پولیس کے لیے نوگو ایریا بنادیتی ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ درست ہے لیکن یہ بات اس سے بھی زیادہ درست ہے کہ حکومت اگر کچھ کرنے کی ٹھان لے تو پھر کچھ بھی زیادہ دیر ناممکن نہیں رہتا۔

کچے کے بیس نامور ڈاکوئوں کے سروں کا اعلان دس لاکھ سے بڑھا کر کروڑوں روپے تک کردینا اور ان کی تصاویر کی اشاعت عملی کارروائیوں، فکری پیمانوں اور تدبر کے سکڑنے کی علامت کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے اقدامات سے کچے کے ڈاکوئوں کے حوصلے پست ہونے کے بجائے ان کی مسکراہٹوں میں اضافے ہوتے ہیں۔ دہائی دینے کو جی چاہتا ہے کہ ’’اے پروردگار ہمارے حکمرانوں سے بس آپ ہی نمٹ لیجیے۔ وہ کوئی کام نہیں کرنا چاہتے۔ وہ صرف اقتدار اور زیادہ سے زیادہ اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جائز ناجائز وہ بہر صورت دولت چاہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اس کام سے متعلق کچھ نہیں جانتا جس کی اس ملک کو ضرورت ہے۔ اے خدا اس ملک کو ہمت عطا کر کہ وہ کچے کے حکمرانوں اور پکے کے ڈاکوئوں سے نمٹ سکے‘‘۔ انعام کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کا یہ اعلان کہ جو ان ڈاکوئوں کی مخبری کرے گا یا اطلاع دے گا اس کو انعام دیا جائے گا محض ایک رسمی کارروائی ہے۔ مخبری اس کی کی جاتی ہے جو چھپا ہوا ہو۔ یہ ڈاکو کہیں چھپے ہوئے نہیں بیٹھے ہیں، وہ سرعام بیٹھے ہیں اور سب کو ان کے گھروں کا پتا معلوم ہے۔

کچے میں ڈاکوئوں کے پاس اسلحہ اور گولہ بارود وافر مقدار میں نہیں بلکہ اس کے انبار جمع ہیں۔ بلو چستان میں بدامنی اور شورش اور افغانستان کے مسلسل حالت جنگ میں رہنے نے ڈاکوئوں کو مہلک اور جدید ہتھیاروں کی فراہمی یقینی اور بہت آسان بنادی ہے۔ سندھ کے ڈاکو جدید ہتھیار افغان پناہ گزینوں سے خریدتے تھے یا پھر اسمگلروں، بلوچستان قبائلی پولیس یا سندھ پولیس کے کرپٹ افسران سے خریدتے تھے۔ ان ڈاکوئوں کے پاس کلاشنکوف اور دیگر بھاری اسلحے کے علاوہ راکٹ لا نچر، اینٹی ائر کرافٹ گنز سمیت جدید اسلحہ بھی موجود ہے۔ اخبارات اور میڈیا کے دیگر ذرائع سے محض بڑی وارداتیں ہی سامنے آتی ہیں ورنہ ان علاقوں کے نزدیک پڑنے والے شہروں، گائوں اور دیہاتوں میں اغوا برائے تاوان اور بھتوں کی وارداتیں عام ہی نہیں روز کا معمول ہیں۔

بلو چستان میں جو کچھ ہورہا ہے، لوگ جس طرح گل سڑ رہے ہیں اس پر رونے کے لیے خون کے آنسو درکار ہیں۔ وہاں ریاست ایک جبری ڈھانچے کا نام ہے جس میں فرد کے حقوق کھو گئے ہیں۔ بلوچ، پشتون، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر اور دیگر مظلوم اقوام میں ریاستی جبر اور محرومیوں کے خلاف شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے جو جب بھی پھٹا ایک شورش کا عالم ہوگا۔ مہنگائی اور بے روزگاری اور دیگر بنیادی ضرورتوں کی عدم فراہمی پر پورے ملک میں جو غم وغصہ ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ آئی ایم ایف کے ایما پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتیوں اور درمیانی طبقے پر جو مظالم ڈھائے گئے ہیں وہ جلد ہی بڑے احتجاجوں کی صورت میں ڈھلتے نظر آرہے ہیں۔ زندگی کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں اور اخلاقی ابتری نے ہمیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ پانچ افراد کو زخمی کرنے اور باپ اور بیٹی کو کچل دینے کے باوجود نتاشا عدالت سے باہر اس طرح وکٹری کا نشان بناتی برآمد ہورہی ہے کہ نااہل عہدیداروں اور قانونی بدعنوانیوں کی علامت اپنی عدالتوں پر لعنت بھیجنے کو جی چاہتا ہے جنہوں نے قانونی پابندیوں اور سزائوںکو، قید اور سولی کو، سرمایہ داروں اور اس ملک کے جابروں سے بہت دور کردیا ہے۔ انفرادی جبلتیں ہوں یا اجتماعی محرکات یہاں سب کمزوروں پر جھپٹتے بھیڑیے اور فرعون ہیں۔