گوا: پاکستان سے بھارت منتقل ہونے والے 78 سالہ جوزف فرانسس پریرا کو بھارت کی ساحلی ریاست گوا نے بھارتی شہریت کا سرٹیفکیٹ دے دیا ہے۔ جوزف پریرا کو بھارتی شہریت کا 11 اگست 2013 سے انتظار تھا۔
جوزف پریرا کو بھارتی شہریت 2019 کے متنازع قانونِ شہریت کے تحت دی گئی ہے۔ مودی سرکار نے شہریت کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے اقلیتی ارکان اگر وہاں مظالم کا شکار ہیں تو بھارت کی شہریت حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ متنازع قانون پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان کو عالمی برادری میں بدنام کرنے کی سازش کے سوا کچھ نہ تھا۔
مودی سرکار نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان میں جن ہندوؤں، سِکھوں، پارسیوں، جین، بدھسٹوں اور مسیحیوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اُن سے امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے، اُنہیں کسی نہ کسی حوالے سے تنگ کیا جارہا ہے اور عبادت کا حق بھی نہیں دیا جارہا وہ بھارت کی شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
مودی سرکار نے 2019 میں متنازع قانونِ شہریت نافذ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ 31 اگست 2014 کو یا اِس سے قبل بھارت میں آنے والے اِن تینوں ملکوں کے اقلیتی باشندوں کو بھارتی شہریت حاصل کرنے کا حق ملے گا۔
جوزف پریرا 1946 میں پیدا ہوئے۔ والدین اُنہیں گوا سے پاکستان لے آئے تھے۔ پاکستان میں انہوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کی اور شہریت بھی حاصل کرلی۔ زندگی پاکستان میں گزارنے کے بعد ریٹائر ہونے پر وہ 11 ستمبر 2013 کو گوا چلے گئے۔ انہوں نے گوا کی ماریہ سے شادی کی تھی۔
بدھ کو بھارت کی ساحلی ریاست گوا کے وزیرِاعلیٰ پرمود ساونت نے جوزف فرانسس پریرا کو بھارتی شہریت کا سرٹیفکیٹ دیا۔ وہ نئے قانون کے تحت بھارتی شہریت حاصل کرنے والے گوا کے پہلے باشندے بن گئے ہیں۔