ہائے عوام

272

میں سن شعور سے تا دم تحریر یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ’’عوام‘‘ کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ کتابوں میں پڑھو تو مطلب اچھا ہی درج ہے، یعنی کسی بھی ملک میں رہنے اور بسنے والے لوگ۔ ان کے ساتھ ’’خواص‘‘ کا ذکر بھی آتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو رہتے تو اسی ملک میں ہیں لیکن ذہنی طور پر بہت ہی ’’مفلس‘‘ اور ’’معذور‘‘ ہوتے ہیں۔ مفلس اور معذور ہونے کی وجہ سے ان کو ’’بھیک‘‘ مانگنے کے لیے عوام کے ’’سہارے‘‘ کی ضرورت پڑتی ہے۔

بھیک تو یہ کئی سال کے بعد مانگتے ہیں بالکل ان گدا گروں کی طرح جو ’’جمعرات کے جمعرات‘‘ آتے ہیں لیکن ان کو ’’بسبب معذوری‘‘ عوام کے سہارے کی ہر لمحہ ضرورت درکار ہوتی ہے، آپ اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ قریب قریب تمام ’’گداگر‘‘ سوانگ رچانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ بھی کوئی کم ’’بہروپیے‘‘ نہیں ہوتے عوام کو مسلسل دھوکے میں رکھنے کے لیے نت نئے ’’ماسک‘‘ اور بیوقوف بنانے کی نئی نئی تدابیر سوچتے اور ایجاد کرتے رہتے ہیں۔

بجلی کا بہران چھے ماہ میں حل ہوجائے گا، لاکھوں غریب غربا (ہم جیسے) کو روز گار مل جائے گا، ملک کو یورپ بنا دیں گے (وہ شوق میں ننگے پھرتے ہیں ہم کپڑے تک اتر والیں گے)، سڑکوں کا جال بچھا دیا جائے گا (کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں جو اپنے اور بچوں کے لیے خریدی ہیں آخر ان کو چلانا اور دوڑانا بھی تو ہے) وغیرہ وغیرہ۔

عوام کے سامنے جب اپنی غربت اور معذوری کا پرچار کرنا ہوتا ہے تو یہ عوام کے آگے ہوتے ہیں اور عوام جلوسوں اور ریلیوں کی صورت میں میلوں تک ان کے پیچھے قطار در قطار چل رہے ہوتے ہیں اور ان سے بھی کہیں بڑھ کر ان کی ’’مفلسی اور معذوری‘‘ کا رونا رو رہے ہوتے ہیں اور جب یہ عوام سے بھیک (ووٹ) مانگ رہے ہوتے ہیں تو ان کا چہرہ عوام کے سامنے ہوتا ہے، جلوس تھم جاتا ہے، ریلیاں رک جاتی ہیں، آس پاس کے گھروں سے بھی عوام باہر نکل کر ان مفلس گداگروں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ گدا گر اس زور سے اپنے مفلس اور معذور ہونے کا رونا روتے ہیں کہ سامنے کھڑے عوام غم سے نڈھال ہوجاتے ہیں اور ماحول سسکیوں اور آہوں سے گونج اٹھتا ہے۔

امید بہت بڑا سہارا ہوتی ہے، ان کو بھیک (ووٹ) دینے کے بعد عوام کبھی بجلی کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، کبھی اپنی گلی میں اُبلتے ہوئے گٹر کو دیکھ کر سوچ رہے ہوتے ہیں کہ یہ بس اپنا پانی کچھ ہی دیر میں ’’نگل‘‘ لیں گے، چولہوں میں گیس آجائے گی، بچوں کو مناسب روز گار مل جائے گا، تعلیم مفت ہوجائے گی، کارخانوں کے کارخانے تعمیر ہوجائیں گے، کھانے پینے کی اشیا سبزی والا گھر پر مفت فراہم کررہا ہوگا، آسمان سے ’’من و سلویٰ‘‘ اتر رہا ہوگا، گٹر کے بجائے دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوںگی، ہائے ہمارے ’’معصوم‘‘ عوام، صابر عوام، خوش فہم عوام، جذبہ ٔ حسن ظن سے سر شار عوام، بڑے سے بڑا دھوکا کھانے کے بعد بھی جھوم جھوم کے، لہرا لہرا کے اور ناچ ناچ کے، سب ہم آواز ہوکر یہ نظم گا رہے ہوتے ہیں۔

ابھار کر مٹائے جا، بگاڑ کر بنائے جا
کہ میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا
تری بہار کا مدار اگر ہے میرے خون پر
جمال یار شوق سے مرا لہو بہائے جا
ہنوز سینہ چاک ہوں ہنوز اسیر خاک ہوں
پلائے جا پلائے جا پلائے جا پلائے جا
فغاں کہ مجھ غریب کو حیات کا یہ حکم ہے
سمجھ ہر ایک بھید کو مگر فریب کھائے جا